افغانستان میں گزشتہ ہفتے ایک امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم پیش رفت کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کا اشارہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
لیکن مبصرین کے خیال میں افغانستان میں امن کی کوششوں اور پاکستان کی طرف سے اس میں کردار ادا کرنے کے باوجود ایسی قوتیں موجود ہیں جو شدت پسند تنظیم داعش کو اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرحد پار افغان علاقوں میں داعش کے شدت پسندوں کی موجودگی بدستور پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
داعش کی خراسان شاخ نے مشرقی افغانستان میں اپنی قدم جما رکھے ہیں جس کے خلاف افغان اور بین الاقوامی فورسز کارروائیاں کرتی آ رہی ہیں۔
دفاعی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش میں بہت سے ایسے شدت پسند بھی شامل ہیں جو پہلے دیگر عسکریت پسند گروپوں بشمول تحریکِ طالبان پاکستان میں رہتے ہوئے کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس تنظیم سے مزید کچھ شدت پسند علیحدہ ہو کر داعش خراسان میں شامل ہوجائیں۔
پاکستانی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل اور دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار امجد شعیب کہتے ہیں کہ بعض بیرونی قوتیں داعش کو استعمال کر رہی ہیں جو افغانستان کے امن کے لیے نقصان دہ ہے۔
ان کے خیال میں افغانستان کے تنازع کے فریقین امن کے خواہش مند تو ہیں لیکن اس کے لیے راستہ وہ اپنی مرضی کا اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے اس مقصد کے حصول میں دشواری پیدا ہو سکتی ہے۔
منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امجد شعیب کا کہنا تھا کہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کو تین مختلف دھڑوں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں سے ایک تو وہ ہے جس میں پاکستانی طالبان سے علیحدہ ہونے والے شامل ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔
ان کے بقول دوسرا گروپ وہ ہے جو افغانستان سے ہی نکلا اور زیادہ تر افغانستان خصوصاً شیعہ آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے جب کہ تیسرا گروہ ان جنگجوؤں کا ہے جو شام اور عراق سے یہاں پہنچ رہے ہیں۔
"ان حالات میں صورتِ حال خاصی پیچیدہ ہے۔ تمام فریقین پوری طرح امن لانے کے لیے مخلص نہیں۔ اگر ہیں تو امن کا جو طریقۂ کار ہے، جس راستے سے لانا ہے۔ وہ اپنی مرضی کا چاہتے ہیں جو ان کو سوٹ کرتا ہے۔"
امجد شعیب کے بقول یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے بھی ایک مسئلے کے طور پر موجود ہے۔
گزشتہ ماہ ہی اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی پاکستانی حکومت نے داخلی سلامتی کی جو قومی پالیسی منظور کی تھی اس میں بھی داعش کے بڑھتی ہوئی موجودگی کو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے دیگر دھڑوں کی مدد اور حمایت سے داعش کے پاکستان میں امڈ آنے کا خطرہ ایسا ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
سلامتی کے امور کے ماہر سید نذیر کہتے ہیں کہ داعش کا خطرہ بدستور موجود ہے جو کہ نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں جاری امن کوششوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
"جس طرح بیکٹیریا وقت کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ اور ہیئت بدل لیتا ہے اسی طریقے سے اس قسم کے گروپس کے رنگ اور اہداف بھی بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ایک گروپ میں بدل جاتے ہیں۔ کبھی دوسرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ داعش خراسان پاکستان کی سرحد پر ننگرہار میں موجود ہے اور کافی بڑے علاقے میں ہے۔ اور جس طرح سے وہ افغانستان میں امن کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ انھوں نے حملہ کیا، انھوں نے پاکستان میں بھی حملے کیے ہیں۔ تو داعش پورے خطے کے لیے، چین کے لیے، باقی جو پڑوسی ممالک ہیں ان کے لیے بھی خطرہ ہے۔"
تاہم سید نذیر کے نزدیک پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور امریکہ بھی پاکستان پر پہلے جیسا دباؤ نہ ڈالتے ہوئے تناؤ میں کمی لارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں داعش کے دشمن بھی زیادہ ہیں جن میں چین، روس اور پاکستان شامل ہیں جو اس خطرے کو بڑھنے سے روکنے میں کردار ادا کریں گے۔
پاکستانی فوج نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کر رکھا ہے جس کا مقصد اس کے بقول سرحد کی موثر نگرانی اور عسکریت پسندوں کی سرحد کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت کو روکنا ہے۔