رسائی کے لنکس

'گھریلو تشدد پر اگر مگر کے رویے کی وجہ سے لوگ واقعات کو سنجیدہ نہیں لیتے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں گھریلو تشدد کا معاملہ سوشل میڈیا پر آںے کی صورت میں واقعے کی مذمت تو کی جاتی ہے لیکن ان واقعات میں کمی نہیں آ رہی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ معاشرے میں گھریلو تشدد پر اب بھی اگر مگر کا رویہ موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ایسے واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

حال ہی میں معروف گلوکار راحت فتح علی خان اور نجی ٹی وی چینل اے آر وائی سے وابستہ اینکر اشفاق ستی کی اہلیہ کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔ جن میں تشدد نمایاں نظر آیا ہے۔

اشفاق ستی کی اہلیہ نومیکا ستی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اپنے اوپر مبینہ تشدد کی تصاویر اور ایف آئی آر کی کاپی شیئر کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کے شوہر نے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور یہ تشدد اتنا زیادہ تھا کہ اس میں ان کی جان تک جا سکتی تھی۔

نومیکا کی اس پوسٹ کے بعد ان کے شوہر نے بھی اپنے ویڈیو پیغام میں واقعے کی تفصیلات اور اپنی نجی زندگی کے احترام پر زور دیا ہے۔

اس سارے معاملے کے بعد نجی چینل نے اینکر اشفاق ستی کو نوکری سے اس وقت تک معطل کردیا ہے جب تک معاملے کی اصل حقیقت سامنے نہیں آ جاتی۔

نومیکا اور ان کے شوہر کی سوشل میڈیا پوسٹس کے بعد میڈیا سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات سمیت سوشل میڈیا صارفین نے اس عمل کو ظالمانہ قرار دیا اور واقعے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سارے معاملے پر جہاں اکثریت نومیکا سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے گھریلو تشدد کی مذمت کر رہی ہے وہیں بہت سے لوگوں کی یہ بھی آراء ہے کہ گھر کے معاملات کو سوشل میڈیا پر لانے کا کیا مقصد ہے؟

کچھ لوگوں نے تو اس معاملے کو پبلسٹی اسٹنٹ بھی قرار دیا اور یہ بھی لکھا کہ خواتین ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایسا کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ انہیں گھر کے معاملات کو گھر کے اندر ہی رکھنے چاہئیں۔

کیا سوشل میڈیا موزوں آپشن ہے؟

خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں گھریلو تشدد کے واقعات سوشل میڈیا پر تب آتے ہیں جب خاندان میں اس مسئلے کا حل نہ ملے۔

ان کے بقول ہمارے معاشرے میں خواتین کے معاملات میں خاندان کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اگر مارپیٹ ہو رہی ہے یا حق تلفی ہو رہی ہے تو بیٹیوں کو یہی کہا جاتا ہے کہ آپ گزارہ کریں، مرد تو ایسے ہی ہوتے ہیں، گھر نہیں ٹوٹنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فرزانہ باری نے کہا کہ جب خاندان سپورٹ نہ کرے تو پھر جو تشدد کا شکار ہے وہ سوشل میڈیا پر ہی آئے گا۔ خاص کر جو شوبز کی شخصیات ہیں وہ چوں کہ با اثر ہیں، شہرت رکھتی ہیں تو انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔

فرزانہ باری نے کہا کہ اس کی مثال راحت فتح علی خان کی ہے جنہوں نے اپنے ملازم پر تشدد کیا اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ اسی طرح جب کوئی اینکر اس طرح کے معاملات میں ملوث ہو تو اسے بھی نہیں پکڑا جاتا۔ یہ وہ معاملات ہیں مظلوم مجبور ہو کر انصاف کے حصول کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتا ہے۔

ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے مسائل سوشل میڈیا پر اس لیے لاتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو آگاہ کرسکیں۔ لیکن اس کا اثر اور لوگوں کی آراء قانون پر لاگو نہیں ہوتی۔

ان کے بقول سوشل میڈیا پر لوگ کوئی بھی مطالبہ کریں لیکن قانون ثبوت کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر نے کہا کہ معاملے کو سوشل میڈیا پر لانے کا مقصد ہمدردی حاصل کرنا بھی ہو سکتا ہے جیسے ان کے خیال میں اشفاق ستی کی اہلیہ کو لگتا ہوگا کہ ان کے شوہر طاقتور ہیں۔ لیکن لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں کیسے ہیں۔

صنفی امتیاز اور حساسیت پر کام کرنے والی صحافی لبنیٰ جرار کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا اگرچہ اب ایک خوف ناک روپ دھار چکا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ گھریلو تشدد کسی مخصوص جنس پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ یہ کوئی بھی کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی مثال ہالی وڈ اداکار جونی ڈیپ اور امبر ہرڈ کا کیس ہے جس میں امبر کی جانب سے جونی ڈیپ پر تشدد کا الزام لگایا گیا لیکن ثابت اس کے برعکس ہوا۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گھریلو تشدد کا زیادہ تر نشانہ عورتیں اس لیے بنتی ہیں کہ وہ کمزور ہوتی ہیں۔

ان کے بقول نومیکا کے کیس میں بھی، جو انہوں نے سوشل میڈیا پر اٹھایا ہے، اس پر لوگوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات جس نہج پر بھی ہوں لیکن جسمانی تشدد کو کسی بھی طرح سے جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا۔

کیا سوشل میڈیا پر ایسے کیسز آنے سے ان کی حساسیت ختم ہو جاتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز کے رپورٹ ہونے سے ان کی حساسیت میں کمی نہیں آئی۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ جو کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں وہ کیسے پیش کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ صنفی حساسیت کے ساتھ رپورٹ کیے جائیں تو لوگوں کے اندر تشدد کے خلاف برداشت ختم ہوتی ہے اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن دوسری جانب ایسے لوگ جو پدرشاہانہ سوچ رکھتے ہیں وہ ان باتوں پر مذاق اڑاتے ہیں۔

ان کے بقول ایسے کیسز کے رپورٹ ہونے سے لوگوں کے علم میں ایسے مسائل آتے ہیں اور اس پر بات ہوتی ہے جو ایک مثبت عمل ہے۔

ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر اس سوال پر مختلف رائے رکھتی ہیں، ان کے مطابق سوشل میڈیا پر ماحول بہت زہر آلود ہے جہاں لوگ اب مسائل کو دیکھ کر عادی ہوچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب سماجی ہم دردی کم نظر آتی ہے۔

ان کے خیال میں نجی معاملات کو جو لیگل پراسس کے ذریعے ریلیف مل سکتا ہے وہ کسی اور جگہ نہیں مل سکتا۔

کیا گھریلو تشدد واقعی ذاتی مسئلہ ہے؟

فرزانہ باری کہتی ہیں کہ وہ زندگی کبھی ذاتی نہیں رہتی جب اس میں تشدد آجائے۔ گھر اسی وقت تک پرائیویٹ رہتا ہے جب تک اس کے اندر کسی جرم کا ارتکاب نہ ہو لیکن جب وہ ایسی جگہ بن جائے جہاں لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو، تشدد ہو، گھریلو ملازمین کو مارا جائے، ریپ ہو، جہاں بچوں پر والدین ظلم کریں تب وہ گھر کا معاملہ ذاتی نہیں رہتا وہاں ریاست کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔

ان کے بقول ذاتی زندگی اس وقت تک ذاتی ہے جب تک فریقین ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری اور تحفظ کریں۔

جلیلہ حیدر کے مطابق ایک ایسا شخص جو پرتشدد ذہنیت رکھتا ہو، ضروری نہیں کہ وہ صرف جسمانی تشدد کرتا ہو۔ وہ ذہنی تشدد بھی کرسکتا ہے۔

جلیلہ کے مطابق بطور وکیل وہ اپنے کلائنٹ کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ سوچیں کہ آیا وہ ایسے شخص کے ساتھ مزید رہنا چاہتی ہیں جو ان پر تشدد کرتا ہو؟ ایسے کیسز کے بارے میں پہلے تو وہ اپنی فیملی، والدین اور قریبی لوگوں کو آگاہ کریں کیوں کہ سوشل میڈیا وہ پلیٹ فارم نہیں جہاں ان مسائل کا حل نکلے۔

لبنیٰ جرار کے مطابق، گھریلو تشدد کسی لحاظ سے ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ جن معاملات اور مسائل پر پہلے کھل کر بات کرنے کا رواج نہیں تھا اب سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر بات ہو رہی ہے۔ البتہ گھریلو تشدد پر اگر مگر کا رویہ معاشرے میں موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ایسے واقعات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

لبنیٰ کہتی ہیں گھریلو تشدد کے واقعات میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ضرور خاتون نے کچھ کیا ہوگا تب ہی ایسی نوبت آئی۔ ان کے بقول، "میں سمجھتی ہوں کہ اگر عورت بد زبان ہے یا بری بھی ہے تو مرد اسے طلاق دے دے لیکن ہاتھ اٹھانا مار پیٹ کرنے کا حق اسے تب بھی نہیں۔"

گھریلو تشدد کی پاکستان میں سزا کیا ہے؟

جلیلہ حیدر کے مطابق گھریلو تشدد کی بہت سی نوعیت ہیں اور اس کی سزا جرم کی نوعیت اور سنگینی کے حساب سے ہے۔

جلیلہ نے بتایا کہ گھریلو تشدد اگر قتل کی صورت میں ہے تو اس کی سزا، سزائے موت ہے لیکن اگر وہ تشدد کا کیس ہے تو اس میں میڈیکل کی بنیاد پر پتا چلتا ہے کہ تشدد کس نہج کا ہے۔

جلیلہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مینٹل ابیوز (ذہنی اذیت) جس میں گالم گلوچ، کردار کشی، جو کہ گھریلو تشدد کی ایک شکل ہے اس پر کوئی قانون ہمیں نظر نہیں آتا اور یہ تشدد تو سب سے زیادہ عام ہے۔

لبنیٰ جرار کے مطابق گھریلو تشدد کی سزا چھ ماہ سے تین سال تک کی ہے یہ کیس پر منحصر ہے۔

لبنیٰ کہتی ہیں گھریلو تشدد سے متعلق قوانین اتنے سخت کرنے کی ضرروت ہے کہ لوگ اس طرح کا اقدام کرنے سے قبل سوچیں۔ بلکہ یہ جرم کرنے والے اور اس کے سہولت کاروں کو بھی سزا ملنی چاہیے۔

فورم

XS
SM
MD
LG