رسائی کے لنکس

بھارت میں انتخابی سرگرمیاں تیز؛ ’این ڈی اے‘ اور ’انڈیا‘ کا الیکشن ایجنڈا کیا ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • بھارت میں سات مراحل میں ہونے والے عام انتخابات رواں ماہ سے شروع ہو رہے ہیں۔
  • مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔
  • بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت مبینہ بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں میں جس طرح ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے اس کا منفی اثر ہو رہا ہے۔

بھارت میں عام انتخابات کی مہم تیز ہو گئی ہے۔ مبصرین اصل مقابلہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی زیرِ قیادت محاذ ’نیشنل ڈیموکریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) اور حزبِ اختلاف کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈویلپمنٹل انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) کے درمیان ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار برسرِ اقتدار آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 19 اپریل سے یکم جون کے درمیان سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ چار جون کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ہوگا۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اتوار کو اتر پردیش (یو پی) کے شہر میرٹھ میں ریلی کرکے ’این ڈی اے‘ کی انتخابی مہم کا اور اپوزیشن نے اسی روز دہلی کے رام لیلا میدان میں ریلی کرکے ’انڈیا‘ کی انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز کیا۔

ان دونوں ریلیوں کی روشنی میں سیاسی مبصرین اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کس کے پاس کیا ایجنڈا ہے اور انتخابات میں کس محاذ کا پلڑا بھاری رہے گا اور کس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔

متعدد مبصرین کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے اور این ڈی اے کے تیسری بار برسر اقتدار آنے کے امکانات قوی ہیں۔ دوسری طرف بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت مبینہ بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں میں جس طرح ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے اس کا منفی اثر ہو رہا ہے۔

بی جے پی کے انتخابی ایشوز

وزیرِ اعظم اپنی تقریروں میں جہاں حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی ترقیاتی اسکیموں کا ذکر کرتے ہیں۔ وہیں حزبِ اختلاف پر بد عنوانی کے الزامات بھی لگاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اس لیے اکٹھی ہوئی ہیں تاکہ ان کی بد عنوانیوں کے خلاف کارروائی نہ کی جائے۔ اس طرح وہ بد عنوانی کے ایشو کو طاقتور ایجنڈا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک ’سینٹر فار اسٹڈیز آف ڈویلپنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ ہلال احمد کے خیال میں مودی حکومت انتخابات میں کامیابی کے لیے کئی محاذوں پر کام کر رہی ہے۔ مزید برآں اس نے بھارت کو ایک ’خیراتی اسٹیٹ‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ خیراتی اسٹیٹ میں جس کے پاس حکومت ہوتی ہے انتخابات میں اسی کو فائدہ ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں وہ حکومت کی جانب سے 80 کروڑ افراد کو مفت اناج دینے اور مفت کی دیگر سہولتوں کا ذکر کرتے ہیں۔

ہلال احمد کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت نے سیاست میں مذہب کا استعمال کیا ہے۔ رام مندر کی تعمیر، دفعہ 370 کا خاتمہ، شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کا نفاذ، بی جے پی کی بعض ریاستی حکومتوں کی جانب سے یکساں سول کوڈ کے اعلان اور تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینا ایسے اقدامات ہیں جو بی جے پی کی سیاست کو مذہبی رنگ دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے میرٹھ کی ریلی میں جہاں اپوزیشن پر متعدد الزامات عائد کیے۔ وہیں انہوں نے رام مندر کی تعمیر، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے اور تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے کو اپنی حکومت کی کامیابی قرار دیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے غریبوں کو مفت علاج، مفت اناج، خواتین کی فلاح و بہبود کی اسکیموں کے ذکر کے ساتھ بھارت کو دنیا کو تیسری بڑی معیشت بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس انتخاب کے بعد جب ان کی حکومت تیسری بار قائم ہوگی تو بھارت سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ہلال احمد کے خیال میں بی جے پی وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ پوری مہم ان کے ہی چہرے پر چلائی جا رہی ہے۔ وہ ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کو ملنے والا ووٹ دراصل مودی کو ملے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل کے انتخابات میں بھی مودی کے نام پر ووٹ مانگے جاتے رہے ہیں۔

’انڈیا‘ کے ایشوز

تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن نے ’جمہوریت بچاؤ‘ کا نعرہ لگایا ہے جب کہ صاف شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔

رام لیلا میدان میں ہونے والی اس کی ریلی نے کئی پیغامات دیے ہیں۔

سینئر صحافی راجندر تیواری کہتے ہیں کہ مذکورہ ریلی ’جمہوریت بچاؤ‘ کے نام پر ہوئی۔ اس طرح اپوزیشن یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔ اس کے تحفظ کے لیے بی جے پی کی شکست ضروری ہے۔

ایک یو ٹیوب چینل سے گفتگو میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی تک ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ اپوزیشن میں اتحاد نہیں ہے اور جو محاذ بنا تھا وہ عملی شکل نہیں لے رہا۔ لیکن اس ریلی نے اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ اس ریلی میں اپوزیشن کی 18 جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی جن میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس بھی شامل تھی۔

اس کے علاوہ تین خواتین سونیا گاندھی، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کی اہلیہ سنیتا کیجری وال اور جیل میں بند جھارکھنڈ کے سابق وزیرِ اعلیٰ ہیمنت سورین کی اہلیہ کلپنا سورین کی اسٹیج پر موجودگی اور تقریروں نے اس اتحاد کو نئی طاقت دے دی۔

’انتخابات‘ کو انتخابی ایشو بنا دیا

نئی دہلی کے ایک کثیر الاشاعت اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے بھی جمہوریت کے تحفظ کے نعرے کو اہمیت دی ہے۔

اس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ اپوزیشن نے بے روزگاری اور مہنگائی وغیرہ کے بجائے ’انتخابات‘ کو ہی انتخابی ایشو بنا دیا ہے۔

اس کے مطابق اپوزیشن نے یہ الزام لگا کر کہ حکومت سرکاری ایجنسیوں اور اداروں کا استعمال کر کے غیر جانب دارانہ انتخابات کو متاثر کر رہی ہے۔ جمہوریت میں اپنے یقین و اعتماد کو ظاہر کیا ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر اس بار بھی بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر حکومت اپوزیشن کے خلاف اداروں کا استعمال نہ کرے تو نہیں جیت سکتی۔

ان کے مطابق اگر حکومت کامیاب ہوگی تو ’فکسنگ‘ سے کامیاب ہوگی۔ اس صورت میں اگر اس نے آئین کو بدلنے کی کوشش کی تو بقول ان کے ملک میں آگ لگ جائے گی۔

کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے کانگریس کے اکاونٹس منجمد کرنے اور محکمۂ انکم ٹیکس کی جانب سے کروڑوں روپے کے نوٹس جاری کرنے پر سوال اٹھایا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ حکومت اپوزیشن کو الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل بنانا چاہتی ہے۔

یاد رہے کہ محکمۂ انکم ٹیکس نے کانگریس کو 3567 کروڑ روپے کا نوٹس جاری کیا ہے جسے کانگریس نے ’ٹیکس دہشت گردی‘ قرار دیا۔

اس الزام کے بعد محکمۂ انکم ٹیکس نے پیر کو عدالت میں کہا کہ وہ جولائی تک کانگریس سے ٹیکس جمع کرنے کا مطالبہ یا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔

الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری پر سوال

اپوزیشن نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی غیر جانب داری پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

اس نے کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کو یقینی بنائے۔ اپوزیشن کو مالی اعتبار سے کمزور کرنے کی حکومت کی کوششیں روکے اور سرکاری ایجنسیوں کی مدد سے اپوزیشن رہنماؤں کو ہدف بنانے کا سلسلہ بند کرائے۔

سینئر تجزیہ کار وویک شکلا کہتے ہیں کہ انتخابات میں پیسوں کی بے تحاشہ ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی کے پاس پیسوں کی بہتات ہے۔ اس نے الیکٹورل بانڈز سے ہزاروں کروڑ روپے کمائے ہیں جب کہ حکومت کانگریس کی اقتصادی طاقت کو توڑ دینا چاہتی ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن خاموش ہے۔

کانگریس کا الزام ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔ اس نے الیکٹورل بانڈز کے حوالے سے بی جے پی کے خلاف جو اشتہار تیار کیا ہے اسے اخبارات نے شائع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

’اپوزیشن کا کوئی مربوط ایجنڈہ نہیں‘

ہلال احمد اپوزیشن کے ’جمہوریت بچاؤ‘ کے نعرے پر سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نعرہ واضح نہیں ہے۔ علاقائی جماعتوں کے الگ الگ مطالبات اور مفادات ہیں۔ اس لیے اپوزیشن کے پاس کوئی مربوط ایجنڈہ نہیں ہے۔

لیکن راجندر تیواری اور بعض دیگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مودی حکومت کو ہٹانا ہی اپوزیشن کا ایجنڈہ ہے۔ رام لیلا میدان کی ریلی میں کسی بھی مقرر نے عوام سے اپوزیشن کو کامیاب بنانے کی اپیل نہیں کی بلکہ مودی حکومت کو ہرانے، مبینہ آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے تحفظ کی اپیل کی۔

اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں بھی تجزیہ کاروں کی آرا منقسم ہیں۔ جہاں حکومت کی جانب جھکاؤ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا مؤقف ہے کہ اس سے عوام کے سامنے اپوزیشن رہنما بے نقاب ہو گئے ہیں۔ وہیں بعض دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس کا الٹا اثر پڑے گا۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایجنسیوں کی کارروائی سے جہاں عوام کے بعض حلقوں میں شکوک پائے جاتے ہیں۔ وہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر الزامات ہیں تو اپوزیشن رہنماؤں کو ان کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے وہ اروند کیجری وال پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ای ڈی نے ان کو متعدد بار سمن کیا لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔

مزید گرفتاریوں کا امکان

تاہم ہلال احمد کا خیال ہے کہ اس بار کا الیکشن معمول کا الیکشن نہیں ہے۔ آگے چل کر حکومت اور ایجنسیاں اپوزیشن کے خلاف مزید اقدامات کر سکتی ہیں اور مزید رہنماؤں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

بھارت: عام انتخابات میں خواتین کا ووٹ کتنا اہم ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:39 0:00

واضح رہے کہ دہلی حکومت میں وزیر آتشی نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ای ڈی عام آدمی پارٹی کے مزید چار سیاست دانوں یعنی انہیں، وزیر سوربھ بھاردواج، رکن پارلیمنٹ راگھو چڈھا اور رکن اسمبلی درگیش پاٹھک کو گرفتار کر سکتی ہے۔

انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں یہ الزام بھی لگایا کہ بی جے پی نے بعض قریبی لوگوں کے ذریعے ان سے رابطہ قائم کیا اور یہ کہتے ہوئے انہیں بی جے پی میں شامل ہونے کی دعوت دی کہ اس طرح ان کا سیاسی کریئر محفوظ رہے گا۔

بی جے پی نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG