بے ہنگم تعمیرات نے پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی شہر کراچی کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کردیا ہے۔ جس طرف بھی دیکھیں بے ترتیب اور ذوق تعمیر سے عاری عمارتیں نظر آتی ہیں ۔۔۔ کنکریٹ کا یہ جنگل شہر کی ہریالی کی قیمت پر بنایا گیا ہے۔
درختوں کی کمی سے موسم کی شدت اور آلودگی کے وار سہتے کراچی والوں کے لئے یہ خبرخوشگوار ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کہ اب شہر میں پاکستان کا پہلا ’اربن فورسٹ‘ یا یوں کہیں کہ ’عمارتوں کےجمگھٹ میں پہلا ہرا بھرا جنگل‘ بسنے والا ہے۔
یہ جنگل بس رہا ہے کراچی کے پوش علاقے کلفٹن کے بلاک فائیو میں ’نہر خیام‘ کے کنارے۔ شہزاد قریشی کہتے ہیں ’’بظاہر یہ ایک چھوٹا اور عام سا پروجیکٹ لگتا ہے۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں اگر چھ یا سات پارکوں کو جنگلات میں تبدیل کردیا جائے تو شہر کا ’ایکولوجیکل لینڈ اسکیپ‘ مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی نہایت خوش گوار ہوگی۔‘‘
وائس آف امریکہ کے نمائندے نے اس پروجیکٹ کا دورہ کیا تو اس حقیقت سے پردہ اٹھا کہ یہ پروجیکٹ ماحول اور شہریوں کے لئے اس قدر مفید ثابت ہو سکتا ہے کہ ماحول، انسانی صحت اور شہر کی خوبصورتی بیک وقت کئی گنا بہتر ہوجائے گی۔
شہزاد قریشی کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی ہی نہیں جنوب ایشیائی خطے میں اگلنے والے درختوں کو یہاں لاکر انہیں پھر سے اگانے کا ادارہ رکھتے ہیں اور وہ بھی بڑے پیمانے پر قدرتی جنگلات کی طرح۔ ‘‘
پروجیکٹ کی ابتدا ہوچکی ہے۔ ننھے منے پودے بہت کم وقت میں کافی اونچے اور تناور ہوگئے ہیں، جبکہ بقول شہزاد، اگلے تین چار سالوں میں ان کا قد تقریباً پندرہ فٹ ہوئے گا۔ پودے قریب قریب لگے ہیں جو کسی وقت میں گھنے جنگلوں میں بدل جائیں گے۔ ۔۔حتیٰ کہ سورج کی روشنی بھی اس کی سطح تک نہ پہنچ سکے۔
’اربن فوریسٹ‘ میں تقریباً ایک ہزار دو سو اسی پودے لگائے گئے ہیں جن میں پھولوں، پھلوں اور سایہ دار پودے شامل ہیں۔ چار سو گز کے علاقے میں درختوں کی پینتالیس اقسام لگائی گئی ہیں۔ جس پارک میں اربن فوریسٹ لگایا گیا ہے اس کا رقبہ ایک ایکٹر سے زیادہ ہے۔
جس زمین پر یہ پائلٹ پروجیکٹ لگایا گیا ہے وہ حکومت کی ملکیت ہے۔ پروجیکٹ کی اجازت کے لئے ہارٹی کلچر ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا۔ سندھ فوریسٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنی نرسریوں سے کچھ ایسے درختوں کی اقسام فراہم کیں جو اسی علاقے میں اگتے اور پرورش پاتے ہیں، جبکہ فوریسٹ کی دیکھ بھال کے تمام اخراجات وہ خود برداشت کرتے ہیں۔