رسائی کے لنکس

افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی، طالبان حکومت کو بغاوت کا سامنا


  • پوست کی کاشت پر پابندی کے خلاف افغان صوبے بدخشاں میں مظاہرے
  • طالبان سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے دو افراد ہلاک
  • پوست کی کاشت کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی: طالبان آرمی چیف قاری فصیح الدین
  • طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخندزادہ کے فرمان کے تحت پوست کی کاشت پر پابندی لگائی گئی تھی: ترجمان ذبیح اللہ مجاہد

اسلام آباد--افغانستان میں طالبان حکومت کو پوست کی کاشت پر عائد پابندی کی وجہ سے عوامی بغاوت کا سامنا ہے۔ سخت گیر طالبان حکومت نے عوامی احتجاج کو سختی سے کچلنے کی دھمکی دی ہے۔

جمعے کو افغان صوبے بدخشاں میں اس وقت حالات کشیدہ ہو گئے جب طالبان حکومت کی انسدادِ منشیات فورسز نے افغان صوبے بدخشاں میں پوست کے کھیتوں کو تباہ کرنا شروع کر دیا۔ اس پر ناراض مقامی کسانوں نے مزاحمت کی اور بھرپور احتجاج کیا۔

متعدد ذرائع نے اتوار کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان سیکیورٹی فورسز نے آتشیں ہتھیار بھی استعمال کیے جس سے دو روز سے جاری احتجاج کے دوران دو افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہیں جس میں کسان طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخندزادہ کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں جن کے حکم پر پوست کی کاشت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ تاہم آزاد ذرائع سے ان ویڈیوز کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

اتوار کو طالبان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اب صورتِ حال معمول پر آ گئی ہے۔ تاہم مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اب بھی علاقے میں کشیدگی برقرار ہے اور وہ اعلٰی سطحی حکومتی کمیٹی کے منتظر ہیں تاکہ ان کی شکایات کا ازالہ ہو سکے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رات گئے ایک سرکاری اعلان میں کہا کہ ان کے آرمی چیف قاری فصیح الدین جو بدخشاں کے رہنے والے ہیں، ٹیم کی قیادت کریں گے تاکہ وہ تشدد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حالات کی مکمل چھان بین کریں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ بدخشاں میں انسدادِ پوست مہم سپریم لیڈر اخندزادہ کے فرمان کے مطابق شروع کی گئی ہے تاکہ غیر قانونی فصل کی کاشت اور اس کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔

اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کے سپریم کمانڈر کے فرمان کا اطلاق بغیر کسی استثنیٰ کے ملک کے تمام علاقوں میں ہوتا ہے۔ لیکن کچھ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے افسوس ناک واقعات پیش آئے۔

طالبان کے آرمی چیف قاری فصیح الدین نے مبینہ طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر مظاہرے جاری رہے تو وہ 'بغاوت کو روکنے' کے لیے اضافی فوجی دستے طلب کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو افغانستان میں پوست کی کاشت ہر صورت روکی جائے گی۔

بدخشاں اور اس کے آس پاس کے افغان صوبے نسلی طور پر غیر پشتون علاقے ہیں۔ اس صوبے کی سرحدیں تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔

طالبان نوے کی دہائی میں اپنے پہلے دورِ اقتدار کے دوران بدخشاں اور اس سے ملحقہ دیگر صوبوں کا کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ تاہم 2021 میں طالبان نے تمام 34 افغان صوبوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا تھا۔

تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بدخشاں میں عوامی بغاوت ان ممکنہ رکاوٹوں کو نمایاں کرتی ہے جن کا طالبان کو اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے کے لیے سامنا ہو سکتا ہے۔

بین الاقوامی برادری نے انسانی حقوق کے دیگر خدشات کے علاوہ افغان خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان حکومت کو ابھی تک باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

تقریباً تین سال قبل طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ بینکنگ کا شعبہ مشکلات سے دوچار ہے اور طالبان رہنماؤں پر دہشت گردی سے متعلقہ پابندیاں ڈونرز کو ترقیاتی پروگراموں کے لیے مالی امداد دوبارہ شروع کرنے سے روکتی رہتی ہیں۔

پابندی کی وجہ سے چار کروڑ آبادی والے ملک کی اکثریت بے روزگاری اور معاشی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کی جمعرات کو جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پوست کی کاشت پر پابندی کی وجہ سے کسانوں کو 1.3 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔

اقوامِ متحدہ کے تخمینوں کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوست کی کاشت پر پابندی کی وجہ سے چار لاکھ 50 ہزار افغان کسانوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

سن 2022 میں پوست کی کاشت پر پابندی سے قبل افغانستان کا شمار افیون پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک کے طور پر ہوتا تھا۔

افغانستان میں تمام غیر قانونی منشیات کی کاشت، پیداوار، استعمال، نقل و حمل، تجارت، برآمد اور درآمد پر پابندی عائد ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG