افغان طالبان کو نقد رقوم کی شدیدقلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ان کی مالی مدد کرنے والوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ کئی طالبان لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک ایسی تحریک کی مالی مدد کرنے میں ہچکچا رہے ہیں جن کا نشانہ غیر ملکی فورسز کی بجائے عام شہری بن رہے ہیں۔
گارڈین میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ میں طالبان دورکے ایک اہم سفارت کار مولانا رحیم اللہ کاکازادہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پچھلےسال میدان جنگ میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود طالبان کے لیے سرمائے کے حصول میں مشکلا ت بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے اخبار کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اب لوگوں میں ہماری جنگ غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے کیونکہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے ہماری شہرت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔نقد عطیات دینے والے یہ نہیں چاہتے کہ ان کی رقم بچوں کو مارنے پر خرچ ہو۔
فنڈز کی کمی کی وجہ سے طالبان کے لیے اپنے زخمیوں کا علاج پاکستان کے پرائیویٹ اسپتالوں میں کرانا مشکل ہوگیا ہے
طالبان کو طویل عرصے سے افغانستان اور خلیجی علاقوں کے کاروباری اور مال دار افراد سمیت خطے میں اپنے حامیوں سے عطیات ملتے رہے ہیں۔
لیکن اب ان کے پاس سرمائے کی اتنی کمی ہوچکی ہے کہ ان کے شدید زخمی جنگجوؤں کا پاکستان کے پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج نہیں ہو پا رہا۔کیونکہ وہ اپنے بل چکانے کے قابل نہیں رہے۔
کاکازادہ نے اخبار کو بتایا کہ 2014 میں افغانستان سے زیادہ تر غیرملکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان دھڑوں میں خونی جھڑپوں سے ان کی طاقت میں کمی آئی ہے۔
اگرچہ کاکازادہ طالبان کی پندرہ سالہ جدوجہد کا حصہ نہیں رہے لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ وہ متحرک طالبان لیڈروں کے بہت قریب ہیں۔
طالبان کے ایک سینیئر لیڈر نے گارڈین کو بتایا کہ عطیات میں شدید کمی پچھلے سال جولائی میں یہ خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ہوئی کہ طالبان کے سربراہ ملا عمر کا انتقال دو سال پہلے ہوگیا تھا۔
کوئٹہ شوری پر پاکستانی خفیہ ایجنسی سے اپنے رابطے ختم کرنے اور ہلمند منتقل ہونے کا دباؤ
ان کے بعد طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور کی امریکی ڈروں حملے میں ہلاکت کے بعد تحریک لیے فنڈز اکھٹے کرنا مزید دشوار ہوگیا کیونکہ ملا منصور کے کئی کاروباری افراد سے براہ راست تعلقات تھے اور وہ انہیں عطیات دیتے تھے۔
طالبان کی آمدنی کا ایک اور بڑا ذریعہ ملک کے جنوب میں اپنے کنڑول کے علاقوں پر ٹیکس، خاص طور پر پوست اور افیون کی آمدنی پر ٹیکس تھا۔ لیکن اندرونی رسہ کشی سے اس آمدنی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
باہمی اختلافات کی وجہ سے ہلمند میں طالبان کمانڈر ملا منصور کی کوئٹہ شوری کو جو رقوم بھیجتے تھے ، وہ انہوں نے ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کو دینے سے انکار کر دیا۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلمند کے فوجی کونسل کے کمانڈر ملا ابراہیم صدر نے اخوند زادہ سے کہا ہے وہ پاکستان سے ہلمند منتقل ہوجائیں۔
اخوندزادہ کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ سینیئر راہنماؤں میں اس بارے میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیئں۔ البتہ میدان جنگ میں لڑنے والے کئی جنگجو اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ قندوز جیسی کامیابیاں ان کی مدد نہیں کرسکتیں۔کیونکہ اس شہر پر صرف ایک ہفتے کے قبضے کے لیے انہیں ایک سال تک تیاری کرنی پڑی تھی جب کہ افغانستان کے 34 صوبے ہیں اور وہ ان پر قبضے کے 34 سال تک انتظار نہیں کرسکتے۔اس لیے ہمیں بات چیت کا ہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے اثر سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عزت و احترام حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ یہ تاثر نہ لیں کہ وہ کسی اور کے مفاد کے لیے مجبوراً مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ طالبان کی برہمی کا اظہار پچھلے مہینے قطر میں طالبان کے دفتر کے سربراہ سید محمد طیب آغا کی جانب سے ملا اخوندزادہ کے نام خط کے انکشاف سے ہوتا ہے۔ خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ لڑائیوں میں نمایاں کمی کریں او ر پاکستان کی خفیہ ایجنسی سے اپنے رابطے ختم کریں اور انہیں پاکستان کی اپنی پناہ گاہیں چھوڑ دینی چاہیئں۔
ریڈیو فری یورپ کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں رہ کر آپ کس طرح افغان عوام کی توقعات پوری کر سکتے ہیں۔
تاہم ملا اخوندزادہ اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم پاکستان چھوڑ دیں تو ایک ہفتہ بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔