رسائی کے لنکس

بھارت: الیکشن مہم میں پاکستان بنانے والی مسلم لیگ پر بحث کیوں؟


بھارت میں لوک سبھا کے الیکشن کا پہلا مرحلہ 19 اپریل کو شروع ہوگا۔
بھارت میں لوک سبھا کے الیکشن کا پہلا مرحلہ 19 اپریل کو شروع ہوگا۔

  • وزیرِ اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کے رہنماؤں نے الزام لگایا ہے کہ کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔
  • کانگریس کے منشور میں مسلمان کا لفظ بھی شامل نہیں بلکہ ’اقلیت‘ لکھا گیا ہے جس میں دیگر کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آ جاتے ہیں۔
  • مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کئی سوالوں سے بچنے کے لیے بیانیہ تشکیل دے رہی ہے۔

بھارت میں پارلیمانی انتخابات کی مہم تیز ہو گئی ہے۔ 19 اپریل کو پہلے مرحلے میں 21 ریاستوں میں 102 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس نے اپنا انتخابی منشور جاری کر دیا ہے جسے اس نے ’نیائے پتر‘ یا ’انصاف کا اعلامیہ‘ قرار دیا ہے۔ جب کہ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) تاحال اپنا منشور جاری نہیں کر سکی ہے۔

کانگریس کے انتخابی منشور کے اجرا کے ساتھ ہی بی جے پی اور کانگریس میں الزام اور جوابی الزام کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جہاں یہ الزام عاید کیا کہ کانگریس کے انتخابی منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے وہیں کانگریس کا الزام ہے کہ مسلم لیگ اور بی جے پی کی پالیسیوں میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت کے انتخابات میں پاکستان اور مسلم لیگ کو موضوعِ بحث بنانا ناگزیر ہے اور بی جے پی کسی نہ کسی طرح ان موضوعات کو گھسیٹ لاتی ہے۔ ان کے بقول وزیرِ اعظم مودی نے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ سے متعلق برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ کو یہ کہہ کر اپنے حق میں استعمال کر لیا کہ آج کا بھارت دشمن کے گھر میں گھس کر مارتا ہے۔

کانگریس کے منشور میں کیا ہے؟

جہاں تک کانگریس کے منشور کی بات ہے تو 48 صفحے کی اس دستاویز میں تمام طبقات کو انصاف فراہم کرنے کے لیے پانچ بنیادی نکات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں 25 قسم کی مختلف گارنٹیز کی بات ہے۔ منشور میں کسانوں، خواتین، مزدوروں، نوجوانوں اور اقلیتوں کے ساتھ انصاف اور مساوات کی بنیاد پر برتاؤ کی بات بھی شامل ہے۔

کانگریس کے انتخابی منشور میں قبائلیوں، دیگر پسماندہ برادریوں (او بی سی) اور عام غریب طبقات کے لیے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں مخصوص نشستوں میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے اور راہل گاندھی۔
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے اور راہل گاندھی۔

اس کے ساتھ نوجوانوں کو اپرینٹس شپ ایکٹ 1961 کے تحت ملازمت فراہم کرنے، مرکزی حکومت میں خالی 30 لاکھ اسامیوں کو پُر کرنے، تعلیم پر قرضوں کا سود معاف کرنے اور با صلاحیت کھلاڑیوں کو 10 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔

منشور میں انتہائی کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مہا لکشمی اسکیم کے تحت ایک لاکھ روپے سالانہ دینے، 2029 کے بعد پارلیمان اور اسمبلیوں میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کرنے اور سرکاری ملازمتوں کا 50 فی صد خواتین کے لیے مخصوص کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔

کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں کسانوں کے لیے بھی وعدے شامل کیے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی فروغ اور آئین کے تحفظ کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔ کانگریس نے حکومت کے ’ون نیشن ون الیکشن‘ یعنی ایک ملک ایک انتخاب کے فارمولے کو مسترد کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بی جے پی ون نیشن ون الیکشن کی آڑ میں حکومت پر صرف اپنی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔

’مسلم لیگ کی چھاپ‘

لیکن وزیرِ اعظم نریند رمودی، بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور دیگر بی جے پی رہنماؤں کا الزام ہے کہ کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔ وہ جھوٹ کا پلندہ ہے اور اس کے ہر صفحے سے بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بو آرہی ہے۔

وزیرِ اعظم نے ہفتے کے روز مغربی اترپردیش کے مسلم اکثریتی شہر سہارنپور اور راجستھان کے اجمیر میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے منشور نے اسے بے نقاب کر دیا۔ وہ مسلم لیگ کے نظریات کو بھار ت پر تھوپنا چاہتی ہے۔ انھوں نے تقسیم ملک کے لیے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

وزیرِ اعظم مودی نے کانگریس کے منشور پر کڑی تنقید کی ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے کانگریس کے منشور پر کڑی تنقید کی ہے۔

ان کے مطابق کانگریس کا منشور اس کی اسی سوچ کو ظاہر کرتا ہے جو جنگِ آزادی کے وقت مسلم لیگ کی سوچ تھی۔

انھوں نے رام مندر کے افتتاح کی مخالفت کرنے پر بھی کانگریس پر تنقید کی تھی۔

کانگریس کا جوابی الزام

کانگریس نے وزیرِ اعظم کے الزامات کا جواب دینے میں تاخیر نہیں کی۔ کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے کہا کہ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ شیاما پرساد مکھرجی نے 1940 میں مسلم لیگ کے ساتھ اشتراک کرکے بنگال، سندھ اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں حکومت بنائی تھی۔

واضح رہے کہ شیاما پرساد مکھرجی بی جے پی کی پیش رو جماعت ’بھارتیہ جن سنگھ‘ کے رہنما تھے اور بی جے پی ان کو اپنا بڑا قائد مانتی ہے۔

کھڑگے نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ نریندر مودی اور امت شاہ کے سیاسی پیش روؤں نے بھارت کی جنگِ آزادی کے دوران برطانوی حکومت اور مسلم لیگ کی حمایت کی تھی۔ انھوں نے1942 میں گاندھی جی کی ’بھارت چھوڑو‘ مہم کی مخالفت بھی کی تھی۔

ادھر راہل گاندھی نے کانگریس کے منشور کو بھارت کی روح کا منشور بتایا۔ ان کے بقول، یہ منشور بھارت کی قسمت بدل دے گا۔

واضح رہے کہ منشور کی تیاری سے قبل عوام سے تجاویز طلب کی گئی تھیں۔ اس کے اجرا کے بعد راہل گاندھی نے نصف شب کے وقت ایک ویڈیو بیان جاری کرکے عوام سے اپیل کی کہ وہ منشور میں شامل کرنے کے لیے مزید تجاویز بھیجیں۔

کانگریس نے مسلم لیگ سے متعلق وزیرِ اعظم مودی کے متنازع بیان کی الیکشن کمیشن میں شکایت کی ہے لیکن تاحال کمیشن نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

تجزیہ کار اوما کانت لکھیڑہ کہتے ہیں کہ بی جے پی اور وزیرِ اعظم موجودہ صورت حال سے گھبراہٹ میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے معاملات ہیں جن کا جواب وزیرِ اعظم کے پاس نہیں ہے لہٰذا وہ مذہب کی بنیاد پر ووٹروں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا وہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ کا منشور کہا ہے۔

کانگریس کے منشور میں مسلمانوں کا ذکر نہیں

سینئر تجزیہ کار اور صحافی اوما کانت لکھیڑہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ 35 برس سے کانگریس کے انتخابی منشور سے متعلق پریس کانفرنس کو کور کرتے اور اس کے منشور کا مطالعہ کرتے آرہے ہیں۔ اس بار کے منشور میں کہیں بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں ہے۔ صرف ایک جگہ لفظ ’اقلیت‘ لکھا ہوا ہے اور اقلیت میں صرف مسلمان ہی نہیں آتے بلکہ ملک میں بہت سی اقلیتیں ہیں۔

ان کے خیال میں کانگریس کو معلوم ہے کہ اس کے ہر اعلان کو بی جے پی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرے گی۔ اسی لیے کانگریس نے بہت محتاط انداز میں منشور ترتیب دیا ہے۔ یہاں تک کہ لفظوں اور تصویروں کے انتخاب میں بھی بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی کرتی ہے۔

سینئر صحافی رویش کمار کا اپنے یو ٹیوب پروگرام ’رویش کمار آفیشل‘ کے لیے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہنا ہے کہ بی جے پی اور بالخصوص وزیرِ اعظم ہمیشہ اپنی انتخابی تقریروں کو مذہبی رنگ دیتے رہے ہیں تاکہ وہ ہندوؤں کو خوش کر سکیں۔

ان کے مطابق وزیرِ اعظم مودی کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ بتاتے ہیں لیکن وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے کسی پروگرم کا حوالہ دے کر اپنے الزام کو دست ثابت کرتے ہیں۔

سینئر صحافی اوما کانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی کی دونوں یاتراؤں نے ملک کا ماحول بدل دیا ہے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور الیکٹورل بانڈز وغیرہ معاملات پر حکومت کوئی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی کے اندر شکست کا خوف ہے۔ اسی لیے وزیرِ اعظم مودی اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے بیانات میں ان کے بقول جارحیت آگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کارکنوں کے اندر بھی شکست کا ڈر سما گیا ہے۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے تو ایک ریلی میں بی جے پی کارکنوں سے یہاں تک کہا کہ وہ کسی لہر کے سہارے نہ رہیں بلکہ پارٹی کو جتانے کے لیے محنت کریں۔

یاد رہے کہ بی جے پی کا موقف یہ ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگتی۔ عوام حکومت کی کارکردگی اور اس کے ترقیاتی منصوبوں کے پیش نظر اسے ووٹ دیتے ہیں۔

وزیرِ اعظم مودی بھی بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں ملک کی ترقی کے لیے کرتے ہیں اور اپوزیشن صرف اقتدار پر قابض ہونے کی سیاست کرتی ہے۔

’بیانیہ تیار کرنے کی کوشش‘

صحافی اوما کانت لکھیڑہ کا کہنا ہے کہ بی جے پی بہت سی باتیں بیانیہ تیار کرنے کے لیے کرتی ہے۔ وزیرِ اعظم مودی کا ’اب کی بار چار سو پار‘ کا نعرہ بھی ایک بیانیہ تیار کرنے کے لیے ہے تاکہ لوگ اسی پر گفتگو کریں۔

دیگر متعدد تجزیہ کاروں کا بھی یہی خیال ہے۔ ان کے مطابق ان کے اس نعرے کے بعد میڈیا میں اس پر بحث نہیں ہوتی کہ بی جے پی جیت رہی ہے یا ہار رہی ہے۔ بلکہ بحث اس پر ہوتی ہے کہ بی جے پی چار سو کے پار جا رہی ہے یا نہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG