کراچی ...کوئٹہ سے کراچی تک کا 700 کلومیٹر سے زائد فاصلے کا طویل سفر پیدل طے کرنے کا خیال ہی لرزہ خیز ہے۔ لیکن، کوئٹہ سے 27 اکتوبر کو روانہ ہونے والا مرد، خواتین اور بچوں پر مشتمل قافلہ مشکل ترین سفر اور موسم کی سختیوں کو برداشت کرتا ہوا بلاخر کراچی پہنچ گیا۔
بقول منتظمیں، پیدل مارچ دراصل ایک طویل مدتی احتجاج تھا، جس کا مقصد حکومت کو بلوچستان کے سب سے بڑے عوامی مسئلے کی طرف توجہ دلانا تھا۔ یہ مسئلہ لاپتا افراد کی بازیابی ہے۔
عوامی سطح پر کئی سالوں سے اس مسئلے کے خلاف عوامی احتجاج ہوتا رہا ہے، یہاں تک کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی لاپتا افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے چکے ہیں۔ لیکن، جن گھروں کے افراد اب تک بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ وہ ہر قسم کی جدوجہد اور نہایت تکلیف دے اور صبر آزما انتظار کے باوجود ہمت نہیں ہارے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے آج بھی ہر جتن کرنے کو تیار ہیں۔
جمعرات کو کراچی پہنچنے والے اس قافلے کے روح رواں، ماما قدیر بلوچ ہیں۔ وہ ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے سربراہ بھی ہیں۔
یوسف گوٹھ کراچی پہنچنے کے بعد، انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران بتایا کہ قافلہ 26دنوں تک مسلسل پیدل سفر طے کرتے ہوئے یہاں پہنچا ہے۔ قافلہ صبح سویرے چلنا شروع کرتا تھا اور شام ڈھلے تک سفر طے کرتا رہتا تھا۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ راستے میں جہاں جہاں سے ان کا گزر ہوا، لوگوں نے ناصرف ان کا خوش دلی سے استقبال کیا، بلکہ بلوچ روایات کے مطابق قافلے کے کھانے پینے اور ٹھہرنے کے انتظامات بھی انہوں نے ہی کئے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ان کا جوان بیٹا لاپتا ہوگیا تھا، جسے انہوں نے ہر جگہ تلاش کیا مگر کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ بلآخر، ایک دن انہیں بیٹے کی لاش لاوارث انداز میں پڑی ملی۔ قدیر نے بتایا کہ انہوں نے دوسروں کا درد اپنے دل میں محسوس کیا اور اسی سبب وہ اس پیدل مارچ کا حصہ بنے۔
قدیر کا کہنا ہے کہ، ’میرا بیٹا نہیں رہا۔ لیکن جتنے بھی لاپتا افراد ہیں وہ میرے بیٹے جیسے ہی ہیں۔ میں مار چ میں شریک افراد کے دکھ سمجھتا ہوں۔میں اپنے پیاروں کی بازبی کے لئے جدوجہد کروں گا‘۔
پیدل مارچ کرنے والے قافلے میں وحیدہ نام کی ایک خاتون بھی شریک ہیں، جو پنجگور میں اپنے پانچ بچوں کو چھوڑ کر کراچی آئی ہیں۔ حالانکہ، ان کا چھوٹا بیٹا ابھی صرف پانچ سال کا ہے۔
’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق وحیدہ کا بھائی عبید اللہ لاپتہ ہے ، اسی کی بازیابی کے لئے وہ قافلے میں شریک ہوئیں ۔مسلسل چلتے رہنے کے سبب ان کے پیروں میں سوجن آگئی ہے۔
کراچی پہنچنے پر قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے قافلے کا پھولوں کے ہار کے ساتھ استقبال کیا۔ قافلے میں خواتین اور مرد شامل ہیں۔ یہ سب افراد وہ ہیں جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد لاپتا ہے اور یہ اس کی بازیابی کی غرض سے اپنے اپنے گھروں سے نکلے ہیں۔
قافلے میں شریک ایک اور خاتون فرزانہ مجید جن کا بھائی ذاکر لاپتا ہے، انہوں نے کراچی پہنچنے پر میڈیا کو سفر کے دوران پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی انگلیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ان کا تھکن سے براحال ہے، جبکہ ان کی جلد دھوپ میں جھلس گئی ہے۔
مظاہرین میں شامل ایک اورشخص، شمی بلوچ نے بتایا کہ ان کے والد ڈاکٹر دین بلوچ جون 2009ء سے لاپتا ہیں۔ ان کی والدہ انتظار میں ذہنی مریضہ بن گئی ہیں۔ فون کی ہر گھنٹی پر ہماری امید بندھتی ہے کہ شاید اس فون پر انہیں اپنے والد کی کچھ خبر ملے۔ گھر کے قریب کار رکنے کی آواز آتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ آگئے ۔
قافلے میں خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی شریک ہیں۔ 10 سال کا علی حیدر بھی اس میں شامل ہے ، اس کی بہن ٹمینہ بھی اس کے ساتھ ساتھ پیدل چل کر یہاں پہنچی ہے۔ ان دونوں بچوں کا مارچ میں شامل ہونے کا ایک ہی مقصد ہے ۔۔۔ان کے والد محمد رمضان کی بخیر بازیابی۔۔وہ پچھلے چار سال سے لاپتہ ہیں۔
قافلے نے جب مارچ کا آغاز کیا تھا تو اس میں شریک لوگوں کی تعداد 20سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن، جیسے جیسے قافلہ آگے بڑھا اس میں 60سے 70متاثرہ خاندان شامل ہوگئے۔
ایک بزرگ خاتون عائشہ بی بی نے حب سے مارچ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا گھٹنا ٹوٹا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اور اسی حالت میں وہ مارچ میں پیدل چلتے ہوئے حب سے کراچی پہنچی ہیں۔
بقول منتظمیں، پیدل مارچ دراصل ایک طویل مدتی احتجاج تھا، جس کا مقصد حکومت کو بلوچستان کے سب سے بڑے عوامی مسئلے کی طرف توجہ دلانا تھا۔ یہ مسئلہ لاپتا افراد کی بازیابی ہے۔
عوامی سطح پر کئی سالوں سے اس مسئلے کے خلاف عوامی احتجاج ہوتا رہا ہے، یہاں تک کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی لاپتا افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے چکے ہیں۔ لیکن، جن گھروں کے افراد اب تک بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ وہ ہر قسم کی جدوجہد اور نہایت تکلیف دے اور صبر آزما انتظار کے باوجود ہمت نہیں ہارے ہیں۔ وہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے آج بھی ہر جتن کرنے کو تیار ہیں۔
جمعرات کو کراچی پہنچنے والے اس قافلے کے روح رواں، ماما قدیر بلوچ ہیں۔ وہ ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ کے سربراہ بھی ہیں۔
یوسف گوٹھ کراچی پہنچنے کے بعد، انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران بتایا کہ قافلہ 26دنوں تک مسلسل پیدل سفر طے کرتے ہوئے یہاں پہنچا ہے۔ قافلہ صبح سویرے چلنا شروع کرتا تھا اور شام ڈھلے تک سفر طے کرتا رہتا تھا۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ راستے میں جہاں جہاں سے ان کا گزر ہوا، لوگوں نے ناصرف ان کا خوش دلی سے استقبال کیا، بلکہ بلوچ روایات کے مطابق قافلے کے کھانے پینے اور ٹھہرنے کے انتظامات بھی انہوں نے ہی کئے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ان کا جوان بیٹا لاپتا ہوگیا تھا، جسے انہوں نے ہر جگہ تلاش کیا مگر کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ بلآخر، ایک دن انہیں بیٹے کی لاش لاوارث انداز میں پڑی ملی۔ قدیر نے بتایا کہ انہوں نے دوسروں کا درد اپنے دل میں محسوس کیا اور اسی سبب وہ اس پیدل مارچ کا حصہ بنے۔
قدیر کا کہنا ہے کہ، ’میرا بیٹا نہیں رہا۔ لیکن جتنے بھی لاپتا افراد ہیں وہ میرے بیٹے جیسے ہی ہیں۔ میں مار چ میں شریک افراد کے دکھ سمجھتا ہوں۔میں اپنے پیاروں کی بازبی کے لئے جدوجہد کروں گا‘۔
پیدل مارچ کرنے والے قافلے میں وحیدہ نام کی ایک خاتون بھی شریک ہیں، جو پنجگور میں اپنے پانچ بچوں کو چھوڑ کر کراچی آئی ہیں۔ حالانکہ، ان کا چھوٹا بیٹا ابھی صرف پانچ سال کا ہے۔
’ایکسپریس ٹریبیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق وحیدہ کا بھائی عبید اللہ لاپتہ ہے ، اسی کی بازیابی کے لئے وہ قافلے میں شریک ہوئیں ۔مسلسل چلتے رہنے کے سبب ان کے پیروں میں سوجن آگئی ہے۔
کراچی پہنچنے پر قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے قافلے کا پھولوں کے ہار کے ساتھ استقبال کیا۔ قافلے میں خواتین اور مرد شامل ہیں۔ یہ سب افراد وہ ہیں جن کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد لاپتا ہے اور یہ اس کی بازیابی کی غرض سے اپنے اپنے گھروں سے نکلے ہیں۔
قافلے میں شریک ایک اور خاتون فرزانہ مجید جن کا بھائی ذاکر لاپتا ہے، انہوں نے کراچی پہنچنے پر میڈیا کو سفر کے دوران پیش آنے والی مشکلات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی انگلیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں۔ان کا تھکن سے براحال ہے، جبکہ ان کی جلد دھوپ میں جھلس گئی ہے۔
مظاہرین میں شامل ایک اورشخص، شمی بلوچ نے بتایا کہ ان کے والد ڈاکٹر دین بلوچ جون 2009ء سے لاپتا ہیں۔ ان کی والدہ انتظار میں ذہنی مریضہ بن گئی ہیں۔ فون کی ہر گھنٹی پر ہماری امید بندھتی ہے کہ شاید اس فون پر انہیں اپنے والد کی کچھ خبر ملے۔ گھر کے قریب کار رکنے کی آواز آتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ آگئے ۔
قافلے میں خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی شریک ہیں۔ 10 سال کا علی حیدر بھی اس میں شامل ہے ، اس کی بہن ٹمینہ بھی اس کے ساتھ ساتھ پیدل چل کر یہاں پہنچی ہے۔ ان دونوں بچوں کا مارچ میں شامل ہونے کا ایک ہی مقصد ہے ۔۔۔ان کے والد محمد رمضان کی بخیر بازیابی۔۔وہ پچھلے چار سال سے لاپتہ ہیں۔
قافلے نے جب مارچ کا آغاز کیا تھا تو اس میں شریک لوگوں کی تعداد 20سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن، جیسے جیسے قافلہ آگے بڑھا اس میں 60سے 70متاثرہ خاندان شامل ہوگئے۔
ایک بزرگ خاتون عائشہ بی بی نے حب سے مارچ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا گھٹنا ٹوٹا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اور اسی حالت میں وہ مارچ میں پیدل چلتے ہوئے حب سے کراچی پہنچی ہیں۔