مر گئے بھی تو کہإں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
شاعرہ کا یہ گلہ تو بجا نہیں کہ لوگ انہیں بھلا دیں گے۔ البتہ، مصرہ ثانی ،خوشبو جیسے لہجے کی شاعرہ کے امر ہونے کا ایک زمانہ گواہ ہے۔جی ہاں، ہم بات کار رہے ہیں پروین شاکر کی جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 18 برس گزرنے کے باوجود لوگ بھولے نہیں ، ان کے لفظ ہمیشہ ان کے ہونے کے گواہ رہیں گے۔
چوبیس نومبر ،پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدا ئے اذان بلند کی ،کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔
بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
جدید اردوشاعری کے اہم نام پروین شاکر کے فنی مقام سے تو لوگ آگاہ ہیں ہی،آج ہم ان کی ذاتی زندگی کے چند اوراق پر نظر ڈالتے ہیں۔ان کی بڑی بہن نسرین بانو اور پروین نے اپنا بچپن ایک ساتھ ہنستے کھیلتے گزارا۔دونوں اکٹھے سکول جایا کرتیں۔ پروین جب تیسری کلاس میں تھیں تو انہیں ڈبل پرموشن دیا گیا یوں دونوں بہنیں ایک ہی کلاس میں آ گئیں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:
ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں ،واپسی پر اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا،وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں،ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زورزور سے ہارن بجا رہی تھیں ، شاپ سے سیلزمین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے،اصل میں وہ کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔
ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ صرف 24برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ ’’ خوشبو‘‘ شائع ہوا۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
انگلش لٹریچر اور لنگئٹکس میں ماسٹرز کے بعد پروین شاکر کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعینات ہوئیں۔
رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے
سنہ 1976میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا اور1987ءمیں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔
کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
۔۔۔۔
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
۔۔۔۔۔
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
۔۔۔
پروین اسلام آباد میں سی۔بی ۔آر کی سیکنڈ سیکریٹری مقرر ہوئیں ،اس کے بعد کسٹم میں ہی انسپیکشن اور ٹریننگ کی ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئیں۔
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
۔۔۔
چھبیس دسمبر پیر ہی کے روز آفس جاتے ہوئےاسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ صرف 42 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔اُن کے کتبے پر یہ شعر درج ہیں:
مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے
۔۔۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
شاعرہ کا یہ گلہ تو بجا نہیں کہ لوگ انہیں بھلا دیں گے۔ البتہ، مصرہ ثانی ،خوشبو جیسے لہجے کی شاعرہ کے امر ہونے کا ایک زمانہ گواہ ہے۔جی ہاں، ہم بات کار رہے ہیں پروین شاکر کی جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 18 برس گزرنے کے باوجود لوگ بھولے نہیں ، ان کے لفظ ہمیشہ ان کے ہونے کے گواہ رہیں گے۔
چوبیس نومبر ،پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدا ئے اذان بلند کی ،کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔
بخت سے کوئی شکایت نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
جدید اردوشاعری کے اہم نام پروین شاکر کے فنی مقام سے تو لوگ آگاہ ہیں ہی،آج ہم ان کی ذاتی زندگی کے چند اوراق پر نظر ڈالتے ہیں۔ان کی بڑی بہن نسرین بانو اور پروین نے اپنا بچپن ایک ساتھ ہنستے کھیلتے گزارا۔دونوں اکٹھے سکول جایا کرتیں۔ پروین جب تیسری کلاس میں تھیں تو انہیں ڈبل پرموشن دیا گیا یوں دونوں بہنیں ایک ہی کلاس میں آ گئیں۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:
ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں ،واپسی پر اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا،وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں،ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زورزور سے ہارن بجا رہی تھیں ، شاپ سے سیلزمین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے،اصل میں وہ کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔
ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ صرف 24برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ ’’ خوشبو‘‘ شائع ہوا۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
انگلش لٹریچر اور لنگئٹکس میں ماسٹرز کے بعد پروین شاکر کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعینات ہوئیں۔
رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے
سنہ 1976میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا اور1987ءمیں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔
کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
۔۔۔۔
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
۔۔۔۔۔
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
۔۔۔
پروین اسلام آباد میں سی۔بی ۔آر کی سیکنڈ سیکریٹری مقرر ہوئیں ،اس کے بعد کسٹم میں ہی انسپیکشن اور ٹریننگ کی ڈپٹی ڈائریکٹر تعینات ہوئیں۔
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
۔۔۔
چھبیس دسمبر پیر ہی کے روز آفس جاتے ہوئےاسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ صرف 42 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔اُن کے کتبے پر یہ شعر درج ہیں:
مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے
۔۔۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی