مہندی یا حنا صدیوں سے برصغیر پاک و ہند کی خواتین کے بناؤ سنگھار کا حصہ رہی ہے۔ عہد حاضر میں مہندی لگانے کی قدیم روایت نت نئے آرٹ کے نمونوں کی آمیزش کے ساتھ جدید فیشن کا روپ دھار چکی ہے۔
خواتین کے لیےعید کی خوشیاں ہاتھوں پر مہندی سجائے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہیں۔ اگرچہ، عید اور شادی بیاہ کی تقریبات پر بیوٹی پارلر سے مہندی لگوانے کا رواج زیادہ عام ہے۔ لیکن، بہت سے لوگ چاند رات کی دھکم پیل اورانتظار کی کوفت سے بچنے کے لیے، گھر پر ہی مہندی لگوانا پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں، ’موبائل حنا آرٹسٹ‘ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
برطانیہ میں ان دنوں موبائل حنا آرٹسٹ کا رواج زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس ٹرینڈ کے حوالے سے ایک موبائل مہندی آرٹسٹ، نازنین نے 'وی او اے' سے گفتگو میں بتایا کہ 'ہندوستان اور پاکستان کی طرح حنا کی روایت برطانیہ میں بھی برقرار ہے۔
بلکہ، برطانیہ میں حنا لڑکیوں میں بہت زیادہ مقبول ہو رہی ہے، جو اپنی ہر چھوٹی بڑی خوشی کے موقع پرمہندی کے چھوٹے اور منفرد ڈیزائنوں کو بطور ٹیٹو لگوانا پسند کرتی ہیں۔ جہاں تک عید کی بات ہے، توزیادہ تر لڑکیاں ہاتھوں پر ہلکے پھلکے ڈیزائن بنواتی ہیں۔
نازنین نے بتایا کہ،'عید یا بقرعید کے لیے بکنگ دس پندرہ روز قبل شروع ہوجاتی ہے، لیکن، زیادہ تر خواتین چاند رات پر ہی مہندی لگوانا پسند کرتی ہیں‘۔
ایک موبائل حنا آرٹسٹ کے لیے چاند رات انتہائی مصروف ترین رات ہوتی ہے۔ جبکہ، اُن کے بقول، اُنھیں اپنے کام میں اتنی مہارت حاصل ہے کہ دونوں ہاتھوں پر نارمل ڈیزائن آدھے گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کر لیتی ہیں۔
نازنین کا کہنا تھا کہ، 'گھر پر مہندی لگوانے والی خواتین عموماً چھوٹے بچوں کی مائیں ہوتی ہیں یا پھر ایسی خواتین ہوتی ہین جو ڈرائیونگ نہیں کرتیں۔ لیکن، اکثر گھرانوں میں موبائل آرٹسٹ اسی لیے بھی بلوائی جاتی ہے کیونکہ وہ بیوٹی پارلر جانے کے بجائے گھر پر ہی مہندی لگوانا پسند کرتے ہیں۔'
نازنین کا کہنا تھا کہ اُنھیں اس بات پر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ جو لڑکیاں برطانیہ میں پلی بڑھی ہیں وہ شادی بیاہ کے موقع پر روایتی مہندی لگوانا پسند کرتی ہیں۔
پاک وہند کی طرح، دنیا کے کئی اسلامی ملکوں میں دلھن مہندی کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ مہندی جو کبھی منگنی، شادی بیاہ اور تہواروں کا حصہ سمجھی جاتی تھی، ان دنوں ہرخوشی کی تقریب میں لگوائی جا رہی ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات میں دلہن اور دلہن کی سہیلیاں زیادہ تر سوڈانی یا عربین ڈیزائن کی مہندی لگوانا پسند کرتی ہیں، جس میں بہت ورائٹی ڈالی جا سکتی ہے۔ مثلاً اسے اسٹون اور گلیٹر سے سجایا جاتا ہے۔
مہندی کی اس قسم میں زیادہ تر فلاور اور بڑے پتے بنائے جاتے ہین جنھیں شیڈز میں بھرا جاتا ہے۔
یہ مہندی کا ڈیزائن دیکھنے میں زیادہ واضح اور خوبصورت نظر آتا ہے۔ ٹیٹو جیسے ڈیزائن بنانے کے لیےعام طور پر رنگ برنگی مہندی کہنی سے اوپر بازو بند کے طور پر اور پیروں کے لیے پسند کی جاتی ہے۔ لیکن، دلہن کی مائیں، خالہ، چاچی جیسے رشتہ دار زیادہ تر روایتی پاکستانی ڈیزائن کی مہندی لگوانا پسند کرتی ہیں۔
بقول نازنین، 'ہم اپنے کلائنٹ کو تین طرح کے پیکیج پیش کرتے ہیں۔ جن میں، براونزپیکیج میں نارمل ہاتھوں اور پیروں کی مہندی 70پاؤنڈ میں شامل ہوتی ہے۔ سلور پیکیج میں ہاتھوں کی کلائیوں سے تھوڑا اوپر تک اور پیروں کی مہندی شامل ہوتی ہے، جس کے لیے ایک موبائل آرٹسٹ 90پاؤنڈ تک وصول کرتی ہے۔ جبکہ، گولڈن پیکیج خاص دلہن کے لیے ہوتا ہے جس کے ڈیزائن بالکل منفرد ہوتے ہیں اور یہ کہنیوں تک لگائی جاتی ہے۔
اس پیکیج کے لیے، تقریبا 120 سے150 پاؤنڈ تک وصول کئے جاتے۔اس کے علاوہ، گروپ کی شکل میں مہندی لگوانے والوں سے گھنٹے کے حساب سے پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔
نازنین کے مطابق، ’میری جیسی گھریلو خواتین جو مہندی لگانا جانتی ہیں، ان کے لیے موبائل حنا آرٹسٹ بننا ایک اچھا جز وقتی کام ثابت ہو سکتا ہے‘۔
’میرے کلائنٹ میں صومالیہ، عرب، بنگلہ دیش سمیت کئی اسلامی ملکوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں۔
پسند کے لحاظ سے، زیادہ تر عربین مہندی کا رواج ہے۔ لیکن، مجموعی طور پر کہہ سکتی ہوں کہ، خواتین آج بھی خوشی کے ہر موقع اور تقریبات میں سجنے سنوارنے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں پر حنا کے رنگ بکھیرنا پسند کرتی ہیں اور موجودہ دور نے اس روایت کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔