اسلام آباد —
بھارتی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی واضح اکثریت سے جیت کے بعد ان کے اُمیدوار نریندر مودی آئندہ ہفتے بطور وزیراعظم حلف اٹھائیں گے۔
اس کامیابی اور کانگرس کی شکست کا سہرا مبصرین دائیں بازو کے سیاست دان نریندر مودی کی معاشی بہتری سے متعلق سوچ اور بالخصوص گجرات کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنے میں ان کی کارکردگی کو دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کاروبار، تجارت اور اقتصادی روابط کو اہمیت دینے والی قیادت دونوں ہمسایہ ملکوں میں تعاون اور تعلقات میں بہتری کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
تاہم بعض پاکستانی دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل دفاعی بجٹ میں اضافہ اور اس کی عسکری طاقت میں اضافے سے پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات میں کمی نہیں ہوئی۔
جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک استحکام سے متعلق ساسی نامی تھنک ٹینک کی سربراہ ماریہ سلطان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں جوہری جنگ کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں عسکری توازن قائم کرنا ضروری ہے۔
’’ہندوستان کی عسکری حکمت عملی کو اپ گریڈ کرتے ہوئے دفاعی فارمیشن کو جارحانہ فارمیشن میں تبدیل کیا گیا۔ دوسرا میزائل شکن صلاحیت کو بڑھانے کے لیے امریکہ سے بات چیت چل رہی ہے۔ تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے جو عسکری توازن ہے اور اب ان کی طرف جارہا ہے۔‘‘
2008ء میں ممبئی میں عسکریت پسندوں کے جان لیوا حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع امن مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے جو کہ ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے۔ نئی دہلی یہ کہتا آیا ہے کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ اسے لاحق بیرونی خطرات کے پیش نظر کرتا ہے جس میں چین بھی شامل ہے۔
تاہم پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن محمد یوسف کہتے ہیں۔
’’ہمارے اور انڈیا کے تصفیحہ طلب تنازعات ہیں اور تضاد کی ایک تاریخ ہے تو اب اگر ان کے پاس ایک صلاحیت ہے تو مجھے تو نہیں پتا کہ وہ کس کے خلاف استعمال ہونی ہے تو ان تنازعات اور تصادم کے تناظر میں وہ ان کی صلاحیت تو میرے ذہن میں تو ہے نا۔‘‘
پاکستان اور بھارت گزشتہ 67 سالوں میں دو بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔
پاکستان چین کی مدد سے جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیارے بنا رہا ہے جبکہ الخالد ٹینک بھی تیار کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں سویڈن سے ایواکس حاصل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت سے ممکنہ خطرے کے پیش نظر مختصر فاصلے پر مار کرنے والے النصر میزائل بھی پاکستان نے تیار کر لیے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری مواد سے لیس ان میزائل کے استعمال کی صورت میں ان کی تباہ کاری محدود ہو گی۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے ہندی ایڈیشن کے سینیئر مدیر پرتاپ سبوانشی کہتے ہیں کہ بھارت کے بجٹ میں 10 فیصد کا حالیہ اضافہ اسلحے کی خریداری یا جنگ کے لیے بلکہ فوج میں انفراسٹرکچر میں بہتری کے لیے ہے۔
’’یہاں تو اشتہارات اخباروں میں آتے ہیں کہ لوگ فوج میں نہیں آ رہے کیوں کہ تنخواہیں اور مراعات وہ نہیں جو 25 سال پہلے شاید بہت اچھی نظر آتی ہوں تو یہ دفاعی اخراجات زیادہ تر انہیں بہتر بنانے کے لیے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت اگرچہ پاکستان کے خلاف جذبات رکھتے ہیں مگر وہ چاہیں گے کہ دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہوں۔
’’سیاست ایسی چیز ہے کہ مظفر آباد کے لیے بس چلا کے بھی تالی بجواتے ہیں اور بس بند کروا کے بھی تالی بجواتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوتا تو پھر ان کا بیان تھوڑا تلخ رہے گا، کارروائی تلخ ہو یا نا ہو کیونکہ یہ آئے ہی اسی قیمت پر ہیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ سنجیدہ اور موثر طریقہ کار اور اقدام سے پاکستان اور بھارت میں تعلقات کی بہتری کرتے ہوئے غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں پر نا صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ مالی وسائل اور کوششیں دونوں ملک کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جا سکتی ہے۔
اس کامیابی اور کانگرس کی شکست کا سہرا مبصرین دائیں بازو کے سیاست دان نریندر مودی کی معاشی بہتری سے متعلق سوچ اور بالخصوص گجرات کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنے میں ان کی کارکردگی کو دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کاروبار، تجارت اور اقتصادی روابط کو اہمیت دینے والی قیادت دونوں ہمسایہ ملکوں میں تعاون اور تعلقات میں بہتری کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
تاہم بعض پاکستانی دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کا گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل دفاعی بجٹ میں اضافہ اور اس کی عسکری طاقت میں اضافے سے پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات میں کمی نہیں ہوئی۔
جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک استحکام سے متعلق ساسی نامی تھنک ٹینک کی سربراہ ماریہ سلطان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں جوہری جنگ کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں عسکری توازن قائم کرنا ضروری ہے۔
’’ہندوستان کی عسکری حکمت عملی کو اپ گریڈ کرتے ہوئے دفاعی فارمیشن کو جارحانہ فارمیشن میں تبدیل کیا گیا۔ دوسرا میزائل شکن صلاحیت کو بڑھانے کے لیے امریکہ سے بات چیت چل رہی ہے۔ تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے جو عسکری توازن ہے اور اب ان کی طرف جارہا ہے۔‘‘
2008ء میں ممبئی میں عسکریت پسندوں کے جان لیوا حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع امن مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے جو کہ ابھی تک مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے۔ نئی دہلی یہ کہتا آیا ہے کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ اسے لاحق بیرونی خطرات کے پیش نظر کرتا ہے جس میں چین بھی شامل ہے۔
تاہم پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن محمد یوسف کہتے ہیں۔
’’ہمارے اور انڈیا کے تصفیحہ طلب تنازعات ہیں اور تضاد کی ایک تاریخ ہے تو اب اگر ان کے پاس ایک صلاحیت ہے تو مجھے تو نہیں پتا کہ وہ کس کے خلاف استعمال ہونی ہے تو ان تنازعات اور تصادم کے تناظر میں وہ ان کی صلاحیت تو میرے ذہن میں تو ہے نا۔‘‘
پاکستان اور بھارت گزشتہ 67 سالوں میں دو بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔
پاکستان چین کی مدد سے جے ایف 17 تھنڈر لڑاکا طیارے بنا رہا ہے جبکہ الخالد ٹینک بھی تیار کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں سویڈن سے ایواکس حاصل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ دفاعی ماہرین کے مطابق بھارت سے ممکنہ خطرے کے پیش نظر مختصر فاصلے پر مار کرنے والے النصر میزائل بھی پاکستان نے تیار کر لیے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جوہری مواد سے لیس ان میزائل کے استعمال کی صورت میں ان کی تباہ کاری محدود ہو گی۔
بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے ہندی ایڈیشن کے سینیئر مدیر پرتاپ سبوانشی کہتے ہیں کہ بھارت کے بجٹ میں 10 فیصد کا حالیہ اضافہ اسلحے کی خریداری یا جنگ کے لیے بلکہ فوج میں انفراسٹرکچر میں بہتری کے لیے ہے۔
’’یہاں تو اشتہارات اخباروں میں آتے ہیں کہ لوگ فوج میں نہیں آ رہے کیوں کہ تنخواہیں اور مراعات وہ نہیں جو 25 سال پہلے شاید بہت اچھی نظر آتی ہوں تو یہ دفاعی اخراجات زیادہ تر انہیں بہتر بنانے کے لیے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت اگرچہ پاکستان کے خلاف جذبات رکھتے ہیں مگر وہ چاہیں گے کہ دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہوں۔
’’سیاست ایسی چیز ہے کہ مظفر آباد کے لیے بس چلا کے بھی تالی بجواتے ہیں اور بس بند کروا کے بھی تالی بجواتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوتا تو پھر ان کا بیان تھوڑا تلخ رہے گا، کارروائی تلخ ہو یا نا ہو کیونکہ یہ آئے ہی اسی قیمت پر ہیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ سنجیدہ اور موثر طریقہ کار اور اقدام سے پاکستان اور بھارت میں تعلقات کی بہتری کرتے ہوئے غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں پر نا صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ مالی وسائل اور کوششیں دونوں ملک کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جا سکتی ہے۔