پاکستان میں پولیو سے متاثرہ کیسز میں دن بہ دن اضافہ تشویشناک صورت اختیار کر گیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے ایک ہی دن میں 10 نئے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد یہ تعداد اب 184 ہوگئی ہے۔
طبی ماہرین اس صورتحال کو پریشان کن قرار دے رہے ہیں کیونکہ دنیا میں پولیو وائرس پر پوری طرح قابو نہ پاسکنے والے دیگر دو ممالک یعنی نائیجیریا اور افغانستان میں رواں سال پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد پاکستان سے کہیں کم ہے۔
نئے رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے چھ کا تعلق قبائلی علاقوں، دو کا صوبہ خیبر پختونخواہ اور دو کا کراچی سے بتایا گیا ہے۔
گوکہ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے پولیو کے خلاف مہم کو شد و مد سے شروع کرنے کا اعادہ کیا ہے لیکن اب بھی سلامتی کے خدشات اور بعض دیگر عوامل اس مہم کے تواتر اور افادیت کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔
ان میں سے ایک والدین کا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار بھی بتایا جاتا ہے جس کی وجہ ان قطروں کے بارے میں کیا جانے والا یہ پروپیگنڈا ہے کہ اس سے افزائش نسل متاثر ہوسکتی ہے جسے طبی ماہرین سراسر بے بنیاد قرار دے چکے ہیں۔
ماہرین صحت یہ کہتے آئے ہیں کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے انسداد پولیو مہم کا تواتر سے انعقاد اور ہر بچے تک اس ویکسین کی رسائی از حد ضروری ہے۔
عالمی ادارہ صحت "ڈبلیو ایچ او" پہلے ہی پاکستان کو دنیا میں پولیو کے پھیلاؤ کا سبب قرار دیتے ہوئے یہاں سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لیے پولیو ویکسین پینا لازمی قرار دے چکا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے انسداد پولیو سے وابستہ ایک عہدیدار ڈاکٹر زبیر مفتی نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ آئندہ آنے والے سرد موسم میں انسداد پولیو کی مہم کو اگر تواتر سے جاری رکھا گیا تو اس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
"اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ آنے والے چھ سے نو ماہ جو بہت اہم ہیں خصوصاً اس حوالے سے کہ جو سردی کے موسم ہیں اس میں ویکسین کی قوت یا اس کی افادیت بہت بہتر ہو جاتی ہے گرمیوں کی نسبت تو اس حوالے سے یہ موسم اور مہینے بہت اہم ہوں گے۔ اگر پاکستان کسی طرح اپنی مہم کو ایسے تربیت دے اور تمام بچوں تک ویکسین کی رسائی ممکن ہو تو کوئی وجہ سے نہیں وہ بھی اگلے چھ سے نو ماہ میں کارکردگی نہ دکھا سکے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اب بھی پولیو کے زیادہ تر کیسز وہیں سے رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں یا تو پولیو مہم منعقد ہی نہیں ہوئی یا پھر ایسے علاقے ہیں جہاں یہ مہم اپنے اہداف پورے کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
گزشتہ برس پاکستان میں پولیو کے 93 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جب کہ 2012ء میں یہ تعداد صرف 54 تھی۔ لیکن 2012 کے اواخر سے انسداد پولیو کی مہم سے وابستہ رضاکاروں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کے سلسلے کے بعد ملک میں یہ مہم متعدد بار تعطل کا شکار ہوچکی ہے۔