اسلام آباد —
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہفتہ کو اساتذہ کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد کسی معاشرے میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں استاد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان کے تیزی سے بدلتے سماجی تانے بانے میں قوم کا مستقبل سنوارنے والے اساتذہ کم مائیگی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اسلام آباد کے معروف ڈی چوک میں ہفتہ کو مختلف اساتذہ تنظیموں کی طرف سے ایک واک کا اہتمام کیا گیا جس کے شرکا کا کہنا تھا کہ استاد کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دیے بغیر تعلیمی شعبے میں ترقی ممکن نہیں۔
واک میں شریک ایک استاد سید عامر جعفری کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد جہاں ایک طرف معاشرے میں انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر لوگوں کو استاد کی اہمیت کی یاد دہانی کروانا ہے وہیں اس جانب توجہ مبذول کروانا بھی ہے کہ اساتذہ کی فلاح وبہبود اور ان کے معیار زندگی کو بہتر کرنے سے شعبہ تعلیم کے دیگر مسائل کا حل کسی حد تک آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔
’’ ہم سمجھتے ہیں کہ شعبہ تعلیم میں سب سے اہم جز استاد ہے، عمارت بھی اہم ہے، کتاب بھی اہم ہے وسائل بھی اہم ہیں اور دیگر سہولتیں بھی ضروری ہیں لیکن اگر استاد ٹھیک نہیں ہے وہ مطمیئن نہیں اور وہ اس کام کو ترجیح نہیں سمجھتا تو باقی سب چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی تعلیم کا معیار بلند نہیں ہوسکے گا تو اگر استاد کو تعلیمی پالیسی کا محور بنا لیں تو وہ منزل جلد حاصل ہوسکے جس کا ہم خواب دیکھتے رہے ہیں۔‘‘
انھوں نے فی زمانہ اساتذہ کے معیار زندگی پر افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پڑھے لکھے لوگ اسی باعث اس پیشے کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس، تعلیم و ثقافت ’یونیسکو‘ کے اسلام آباد میں ایک عہدیدار روشن چترکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اساتذہ کے مقام و مرتبے کو بڑھائے بغیر تعلیمی نظام میں بہتری ممکن نہیں۔
’’ہمیں اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ لوگوں کو اس شعبے میں آنے کے لیے آمادہ کیا جاسکے، اسکولوں میں اساتذہ کی کم تعداد بھی ایک بڑا چیلنج ہے، دنیا بھر میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول جانے کی عمر میں ہیں اور وہ اسکول نہیں جاتے اسی طرح کم ازکم پچاس لاکھ اساتذہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔‘‘
روشن چترکار کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں سہولتوں کا فقدان اور وہاں کا ماحول بھی اساتذہ کے لیے سازگار نہیں اور ایسے میں اچھے استادوں کو بھی پوری طرح سے اپنی قابلیت دکھانے کا موقع نہیں ملتا۔
عالمی یوم اساتذہ کے موقع پرمنعقدہ اس تقریب میں شریک ایک طالبہ انم ریاض نے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ والدین بچے کی جسمانی نشونما اور پرورش کرتا ہے جب کہ استاد اخلاقی پرورش، تو کسی بھی استاد کے بغیر کوئی قوم معاشرے میں بلند مقام حاصل ہی نہیں کرسکتی۔‘‘
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ روز اول ہی سے ریاستی بے اعتنائی کا شکار رہا ہے جس پر سالانہ قومی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ موجود حکومت اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ اساتذہ کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے علاوہ تعلیمی شعبے پر خصوصی توجہ دے گی اور آئندہ پانچ سالوں میں تعلیمی بجٹ کو بتدریج چار فیصد تک بڑھایا جائے گا۔
کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں استاد کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان کے تیزی سے بدلتے سماجی تانے بانے میں قوم کا مستقبل سنوارنے والے اساتذہ کم مائیگی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
اسلام آباد کے معروف ڈی چوک میں ہفتہ کو مختلف اساتذہ تنظیموں کی طرف سے ایک واک کا اہتمام کیا گیا جس کے شرکا کا کہنا تھا کہ استاد کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دیے بغیر تعلیمی شعبے میں ترقی ممکن نہیں۔
واک میں شریک ایک استاد سید عامر جعفری کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد جہاں ایک طرف معاشرے میں انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر لوگوں کو استاد کی اہمیت کی یاد دہانی کروانا ہے وہیں اس جانب توجہ مبذول کروانا بھی ہے کہ اساتذہ کی فلاح وبہبود اور ان کے معیار زندگی کو بہتر کرنے سے شعبہ تعلیم کے دیگر مسائل کا حل کسی حد تک آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔
’’ ہم سمجھتے ہیں کہ شعبہ تعلیم میں سب سے اہم جز استاد ہے، عمارت بھی اہم ہے، کتاب بھی اہم ہے وسائل بھی اہم ہیں اور دیگر سہولتیں بھی ضروری ہیں لیکن اگر استاد ٹھیک نہیں ہے وہ مطمیئن نہیں اور وہ اس کام کو ترجیح نہیں سمجھتا تو باقی سب چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی تعلیم کا معیار بلند نہیں ہوسکے گا تو اگر استاد کو تعلیمی پالیسی کا محور بنا لیں تو وہ منزل جلد حاصل ہوسکے جس کا ہم خواب دیکھتے رہے ہیں۔‘‘
انھوں نے فی زمانہ اساتذہ کے معیار زندگی پر افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پڑھے لکھے لوگ اسی باعث اس پیشے کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے سائنس، تعلیم و ثقافت ’یونیسکو‘ کے اسلام آباد میں ایک عہدیدار روشن چترکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اساتذہ کے مقام و مرتبے کو بڑھائے بغیر تعلیمی نظام میں بہتری ممکن نہیں۔
’’ہمیں اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ لوگوں کو اس شعبے میں آنے کے لیے آمادہ کیا جاسکے، اسکولوں میں اساتذہ کی کم تعداد بھی ایک بڑا چیلنج ہے، دنیا بھر میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول جانے کی عمر میں ہیں اور وہ اسکول نہیں جاتے اسی طرح کم ازکم پچاس لاکھ اساتذہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔‘‘
روشن چترکار کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں سہولتوں کا فقدان اور وہاں کا ماحول بھی اساتذہ کے لیے سازگار نہیں اور ایسے میں اچھے استادوں کو بھی پوری طرح سے اپنی قابلیت دکھانے کا موقع نہیں ملتا۔
عالمی یوم اساتذہ کے موقع پرمنعقدہ اس تقریب میں شریک ایک طالبہ انم ریاض نے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ والدین بچے کی جسمانی نشونما اور پرورش کرتا ہے جب کہ استاد اخلاقی پرورش، تو کسی بھی استاد کے بغیر کوئی قوم معاشرے میں بلند مقام حاصل ہی نہیں کرسکتی۔‘‘
پاکستان میں تعلیم کا شعبہ روز اول ہی سے ریاستی بے اعتنائی کا شکار رہا ہے جس پر سالانہ قومی پیداوار کا دو فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ موجود حکومت اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ اساتذہ کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے علاوہ تعلیمی شعبے پر خصوصی توجہ دے گی اور آئندہ پانچ سالوں میں تعلیمی بجٹ کو بتدریج چار فیصد تک بڑھایا جائے گا۔