پاکستان کی فوج نے بتایا ہے کہ افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے آخری مرحلے کے دوران اب تک 252 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ 640 مربع کلومیٹر کا علاقہ عسکریت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے۔
اس مرحلے کا آغاز رواں سال فروری میں ہوا تھا۔
اتوار کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی 'آئی ایس پی آر' کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق شمالی وزیرستان کی شوال وادی میں جاری آپریشن کے اس مرحلے میں 160 جنگجو زخمی بھی ہوئےجبکہ عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک آٹھ فوجی ہلاک اور 39 زخمی ہوئے۔
عسکریت پسندوں سے صاف کروائے گئے علاقوں میں منا، گرباز، لاتکا، انزرکاس اور مگروتائی کے علاقے شامل ہیں جبکہ وادی شوال میں واقع نوہزار فٹ بلند پہاڑی چوٹیوں کو بھی عسکریت پسندوں سے خالی کروا لیا گیا ہے۔
تاہم بیان میں کہا گیا کہ پاک افغان سرحد کے قریب واقع چند ایک مقامات پر عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی اب بھی جاری ہے۔
قبائلی علاقے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی رسائی نہ ہونے کے باعث یہاں پیش آنے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کی اپنے گھروں کو واپسی کا عمل منصوبے کے مطابق جاری ہے اور اب تک سینتیس ہزار سے زائد خاندان اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں۔
دوسری طرف گزشتہ اتوار کو لاہور میں ہوئےخود کش دھماکے کے بعد پاک فوج نے رینجرز اور انٹلی جنس اداروں کی مد د سے صوبہ پنجاب میں آپریشن شروع کیا تھا جس دوران متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کا بتایا گیا۔ تاہم مقامی میڈیا میں ایسا تاثر سامنے آیا کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اس آپریشن کے طریقہ کار کے حوالے سے بظاہر کچھ اختلاف ہے۔
لیکن حکومتی وزرا کا اصرار ہے کہ حکومت اور فوج اس معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے اتوار کو فیصل آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت مل کر کام کررہی ہیں۔
" پاکستان پہلے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے زیادہ پرامن ہے لیکن ابھی منزل پر پہنچنا ہے منزل کی طرف سفر جاری ہے اور اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے سیاسی قیادت نے اس ماحول کو پیدا کیا جو سیاسی قیادت کا کام ہوتا ہے۔ سیاسی قیادت ماحول کو پیدا کرتی ہے جس میں عسکری قیادت کام کرتی ہے"۔
تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے لیے کی جانے کارروائیاں پاکستان کے دوسرے صوبوں بالخصوص سندھ میں جاری آپریشن سے مختلف ہیں۔
سابق سیکرٹری دفاع اور ریٹائرڈ لیفٹنیٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ،" جس طرح کا اختیار رینجرز کا سندھ میں تھا وہ اس لیے تھا کہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے تمام جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں سب اس بات پر متفق ہوئے ، رینجرز کو (مشتبہ) لوگوں کو پکڑنے اور گرفتار کرنے کے پولیس کے خصوصی اختیارات دیئے گئے وہ (اختیارات) ابھی یہاں (پنجاب میں) نہیں ہیں"۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی دیکھی گئی۔ حکام ان واقعات کو دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دہشت گرد اب عام شہریوں کو نشانہ بنا کر ملک میں خوف کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔