افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ملک کے نئے وزیرداخلہ اور اٹارنی جنرل کی نامزدگی کر دی ہے جس سے حکومت توقع ظاہر کر رہی ہے کہ ملک میں سلامتی کی بگڑتی صورتحال کو بہتر کرنے اور مخلوط حکومت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ستمبر 2014ء میں ایک سیاسی مفاہمت کے تحت اشرف غنی ملک کے صدر اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو کے منصب پر فائز ہوئے تھے لیکن اس کے بعد سے مختلف معاملات پر ان کے مابین تناؤ دیکھا جاتا رہا ہے۔
سیاسی کشمکش کے باعث جنگ سے تباہی حال ملک افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے نمٹنے میں بھی مشکل درپیش رہی ہے۔
بدھ کو صدر غنی نے میجر جنرل تاج محمد جاہدی کو نیا وزیرداخلہ نامزد کیا۔ وہ اس وقت مغربی افغانستان میں فوج کی 207 کور کی کمان کر رہے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے سابق رکن محمد فرید حامدی کو ملک کا نیا اٹارنی جنرل نامزد کیا گیا ہے۔
ان دونوں نامزدگیوں کی پارلیمان سے باضابطہ توثیق درکار ہے جو اس سے قبل مختلف عہدوں کے لیے صدر غنی کی متعدد نامزدگیوں کو مسترد کر چکی ہے جن میں وزیردفاع کے لیے نامزدگی بھی شامل تھی۔
موجودہ وزیر داخلہ نور الحق علومی کو نیدرلینڈ میں افغان سفیر کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہی ہیں کہ پارلیمنٹ علومی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی تھی۔ انھیں عبداللہ عبداللہ نے نامزد گیا تھا۔
ملک کے انٹیلی جنس ادارے کے نئے سربراہ کا تعین بھی نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہ عہدہ گزشتہ دسمبر میں صدر غنی سے بعض پالیسیوں پر اختلاف کے باعث رحمت اللہ نبیل کے مستعفی ہونے سے خالی ہوا تھا۔
یہ نامزدگیاں ایک ایسے وقت کی گئی ہیں جب افغانستان میں مصالحتی عمل کو بحال کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے توقع ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات آئندہ ماہ کے اوائل میں دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔
ادھر روس نے بھی طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ مرکزی افغان حکومت سے براہ راست بات چیت کا عمل شروع کرے۔
انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے روسی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف کے حوالے سے بتایا کہ "ہم یہ (مذاکرات) کرنے کے لیے طالبان پر زور دے رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اسے جلد سے جلد شروع کریں گے تاکہ کسی نئی جنگی موسم کے شروع ہونے سے بچا جا سکے۔"
پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ کا اجلاس رواں ہفتے کے اوائل میں کابل میں ہوا تھا جس میں مذاکرات سے متعلق لائحہ عمل پر اتفاق کیا گیا تھا۔