رسائی کے لنکس

سعودی عرب کی مذہبی پولیس کا مستقبل کیا ہو گا؟


سعودی عرب میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والی ڈنڈا بردار مذہبی پولیس کسی زمانے میں شاپنگ مالز اور دیگر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں پر کڑی نگاہ رکھتی تھی۔ اب ملک میں بدلتے ہوئے سماجی حالات کے سامنے بے بس محسوس کر رہی ہے۔ (فائل فوٹو)
سعودی عرب میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والی ڈنڈا بردار مذہبی پولیس کسی زمانے میں شاپنگ مالز اور دیگر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں پر کڑی نگاہ رکھتی تھی۔ اب ملک میں بدلتے ہوئے سماجی حالات کے سامنے بے بس محسوس کر رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

سعودی عرب میں ایک زمانے میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والی مذہبی پولیس جسے کمیشن برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی کہا جاتا ہے، کا مستقبل بدلتے زمانے کے ساتھ غیر واضح ہوتا جا رہا ہے۔

دہشت کی علامت سمجھے جانے والی ڈنڈا بردار مذہبی پولیس کسی زمانے میں شاپنگ مالز اور دیگر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں پر کڑی نگاہ رکھتی تھی۔ اور جس کے کام میں لوگوں کو ان جگہوں سے نکال کر نماز پڑھنے پر مجبور کرنے سے لے کر کسی کو بھی مخالف صنف سے گفتگو سے روکنا تھا۔ اب ملک میں بدلتے ہوئے سماجی حالات کے سامنے بے بس محسوس کر رہی ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے فرضی نام کے ساتھ بات کرتے ہوئے فیصل نے کہا کہ جو کچھ بھی میں روکنا چاہتا ہوں۔ اس کی اجازت نہیں ہے اس لیے میں نے نوکری چھوڑ دی ہے۔

سعودی عرب میں مذہبی پولیس کی ذمہ داری معاشرے میں مذہبی اقدار کا نفاذ تھی۔ لیکن 2016 میں جب سے ملک نے اپنے شدید مذہبی تاثر کو ختم کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے ہیں، مذہبی پولیس کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔

ملک میں پچھلے کچھ برسوں میں خواتین کے حقوق کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں انہیں گاڑی چلانے، کھیلوں کی تقاریب اور کانسرٹوں میں مردوں کے ساتھ شرکت کرنے، اور مرد سرپرست کی منظوری کے بغیر بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کی اجازت شامل ہیں۔

فیصل کے مطابق سعودی مذہبی پولیس، جسے مُطَوَع کے نام سے بھی جانا جاتا ہے سے تمام اختیارات واپس لے لیے گئے ہیں اور اس وقت ان کا کوئی واضح کردار نہیں ہے۔

فیصل نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سعودی عرب میں کمیشن برائے امر بالمعروف و نہی عن المنکر سب سے اہم اتھارٹی تھی اور آج ملک میں جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی سب سے اہم ہے۔

ان کا اشارہ اس حکومتی ایجنسی کی طرف تھا جو ملک میں تقاریب منعقد کرواتی ہے جیسے پچھلے برس ایجنسی کی جانب سے منعقد کروائے گئے ایک کانسرٹ میں کینیڈین پاپ سنگر جسٹن بیبر نے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس اتھارٹی کی جانب سے ملک میں سعودی فارمولا ون گران پری بھی منعقد کروائی گئی اور ایک چار روزہ الیکٹرانک میوزف فیسٹیول بھی ملک میں منعقد ہوا۔

عشروں سے سعودی مذہبی پولیس عورتوں کو ٹھیک سے عبایا لینے پر مجبور کرتی تھی جب کہ ملک میں نئی اصلاحات میں عبایا سے متعلق قوانین کو نرم کیا گیا ہے اور عوامی جگہوں میں مردوں اور عورتوں کا ملنا جلنا بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں اب نماز کے دوران کاروباری جگہوں کو زبردستی بند کرنے کا رواج بھی ختم ہوچکا ہے۔

فرضی نام کے ساتھ اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مذہبی پولیس کے ایک اور سابق اہلکار، ترکی نے کہا کہ جس ادارے کے ساتھ انہوں نے ایک عشرے تک کام کیا ہے وہ اب پہلے جیسا نہیں رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو افسر اب اس ادارے میں کام کر رہے ہیں وہ صرف اپنی تنخواہ پانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

سعودی عرب میں گاڑیوں کے کرتب دکھانے کی تربیت
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:50 0:00

انہوں نے بتایا کہ اب انہیں ایسے رویے جنہیں نامناسب سمجھا جاتا ہے کو تبدیل کرنے یا مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

سعودی عرب میں 2017 سے ملک کے معاملات کو دیکھنے والے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خود کو معتدل رہنما کے طور پر نمایاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگرچہ 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے والے سعودی نژاد صحافی جمال خشوگی کے قتل کے بعد ان کے بارے میں تاثر میں بہت تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق بہت سے سعودی شہریوں کی طرح دارالحکومت ریاض کے ایک سینٹر میں بیٹھ کر سگریٹ پینے والی خاتون لاما نے کہا کہ انہیں مذہبی پولیس کے اہلکاروں کے بارے میں کوئی افسوس نہیں ہے۔

لاما نے کہا کہ کچھ برس پہلے میں یہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھی کہ میں سڑک پر کھڑے ہو کر سگریٹ پی سکتی ہوں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ وہ ہمیں ڈنڈوں سے مارتے تھے۔

مذہبی پولیس کے اہلکار اب سڑکوں پر گشت کرنے کی بجائے اپنے آفس میں بیٹھ کر اچھے اخلاق سے متعلق شعور پھیلانے والی کیمپین بنانے پر غور کرتے رہتے ہیں۔

ایک اور سعودی افسر نے ’اے ایف پی‘ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذہبی پولیس اب محصور ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے اہلکاروں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

فرانس کی سائنسز پو یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر کام کرنے والی سٹیفنی لاکروکس، جو خطے کے معاملات پر نظر رکھتی ہیں، نے کہا کہ حکام فی الوقت اس اتھارٹی کو مکمل طور پر بند نہیں کر سکتے۔

ان کے مطابق مذہبی پولیس کا تعلق ملک کی سعودی شناخت سے ہے جس پر بہت سے قدامت پسند سعودی شہری یقین رکھتے ہیں

XS
SM
MD
LG