اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد پریس کلب کے باہر مذہبی جماعتوں کی طرف سے اجتماع منعقد کرنے اور کارِ سرکار میں مداخلت کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
تھانہ کوہسار میں سٹی مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ چانڈیو کی مدعیت میں درج کردہ مقدمے میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے عورت مارچ کے شرکا پر پتھراؤ کا ذکر نہیں کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے پولیس سے دھکم پیل کی۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق گزشتہ روز پولی کلینک کے پاس لاؤڈ اسپیکر پر عورت مارچ کے شرکا کے احساسات مجروح کیے گئے جب کہ شرکا کو منتشر ہونے کا کہا گیا۔ پولیس اہلکاروں کو دھکے دے کر درمیانی رکاوٹ ہٹا دی گئی جب کہ منتظمین و مظاہرین نے روڈ کو عوام کے لیے بلاک کیا۔
ایف آئی آر میں 11 علما کے نام شامل کیے گئے ہیں۔ جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 300 سے 400 مرد و خواتین بغیر اجازت لاؤڈ اسپیکر کے ہمراہ نیشنل پریس کلب پہنچے اور خواتین کے عالمی دن پر عورت مارچ کے شرکا کے احساسات مجروح کرنے کے لیے جملے کسے گئے۔
پولیس کی جانب سے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا بتایا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ جلسے کے اختتام پر 30 سے 35 افراد نے انتظامات کے لیے لگائی گئی قناتوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا جب کہ پولیس اہلکاروں کو دھکے دیے۔ جس سے چند اہلکار گر گئے۔
ایف آئی آر ممیں مزید کہا گیا ہے کہ منتظمین نے روڈ بلاک کرکے عوام کے لیے بند کر دی۔ مذہبی احساسات کو مجروح کرنے کی نیت اور پولیس ملازمین کی کارِ سرکار میں مداخلت کی۔ جس پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مقدمے میں درج کی گئی دفعات میں مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی دفعہ 298 شامل ہے۔ جس کے تحت مجرم کو ایک سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ عورت مارچ کے شرکا پر جو پتھراؤ کیا گیا۔ اس کے حوالے سے اس ایف آئی آر میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
خیال رہے کہ اب تک عورت مارچ کے منتظمین کی طرف سے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے کوئی درخواست جمع نہیں کروائی گئی۔
دوسری جانب مذہبی جماعتوں کے علما نے بھی پولیس کی طرف سے اندراج مقدمہ کے لیے درخواست دی ہے اور اسلام آباد میں پریس کانفرنس کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل شہدا فاؤنڈیشن نے بھی اس ہنگامہ آرائی کا الزام عورت مارچ کے منتظمین پر عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ مارچ میں شریک بعض افراد نے مذہبی جماعتوں کے اجتماع پر حملہ کیا۔ جس کی وجہ سے ان کا ایک کارکن زخمی ہوا۔ شہدا فاؤنڈیشن نے زخمی کی تصاویر بھی جاری کی تھیں۔