جس دن اسلام آباد میں انیسویں ترمیم منظور ہوئی اسی دن صوبہ ہزارہ تحریک کے سربراہ اور ایکشن کمیٹی کے قائد بابا حیدر زمان کی کال پر احتجاجی مظاہرہ ہوا ۔ رکن صوبائی اسمبلی مشتاق غنی نے اس مظاہرے کی قیادت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ صوبہ کی تحریک نہ صرف پرامن ہے بلکہ یہ تمام سیاسی وابستگیوں سے بھی بالاتر ہے جسے ناکام نہیں کیا جا سکتا۔
اب ہزارہ تحریک نے پندرہ جنوری سے دوبارہ اور باقاعدہ احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ سال کے شروع میں جبکہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھا جارہا تھایہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ تحریک نے وہ زور پکڑا تھا کہ کئی دن تک ہونے والے مسلسل احتجاج اورتحریک کے حامیوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے بعد یہ تحریک دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ احتجاج میں کئی درجن افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اب پندرہ تاریخ سے شروع ہونے والے احتجاج کے اعلانات اس طرف اشارہ ہیں کہ صوبہ ہزارہ کی تحریک ایک مرتبہ پھر زور پکڑنے لگی ہے ۔
تحریک کا مطالبہ ہے کہ ہزارہ کے عوام کو ان کا بنیادی حق دیا جائے اور 19 ویں ترمیم کی طرح 20 ویں ترمیم لائی جائے جس کے ذریعے چھوٹے صوبوں کے قیام کا اعلان کیا جائے۔
پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ اور بزرگ سیاسی رہنما پیر پگاڑا کی کوششوں سے حال ہی میں تشکیل پانے والا مسلم لیگی اتحاد بھی ملک میں چھوٹے صوبے بنانے کے حق میں ہے ۔ ان جماعتوں نے تو باقاعدہ اپنے پارٹی منشور اور اغراض ومقاصد میں چھوٹے صوبوں کی تشکیل کے لئے کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
ہزارہ کو صوبے کا درجہ دلانے کے لئے جاری تحریک کے اصل روح رواں بابا حیدر زمان ہیں جو ایکشن کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکا کے نمائندے کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا کہ پہلے مرحلے میں ہزارہ میں احتجاج کیا جائے گا، اس سلسلے میں 15 جنوری کو مانسہرہ میں جلسہ عام منعقد کیا جائے گا جس کے بعد ایبٹ آباد، ہری پور، بٹ گرام، حویلیاں اور ہزارہ بھر میں جلسے منعقد کیے جائیں گے اور عوامی رابطوں کو مزید مستحکم بنانے کیلئے مہم کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں بھی الگ صوبوں کے مطالبہ کرنے والے لاکھوں لوگ دوبارہ جلسے کے انعقاد کیلئے مدعو کر رہے ہیں اور بہت جلد وہاں بھی ایک بڑا اجتماع ہو گا ۔
نہوں نے کہا کہ انیسویں ترمیم میں نئے صوبوں کی شق شامل کرنے کے لئے ہمارے مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا جس پرہم نے پارلیمنٹ کے باہر بھی احتجاج کیا ۔ اگر عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کے لئے انیسویں ترمیم لائی جا سکتی ہے تواس میں ان لوگوں کے حقوق کی بات کیوں نہیں کی گئی جن کے پیسے سے یہ ادارے چلتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم احتجاج کا راستہ نہیں اپنا نا چاہتے لیکن ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے ۔ اگر ہمارے حقوق نہ فراہم کیے گئے تو یہ تحریک سول نافرمانی کی جانب بڑھ رہی ہے جس کا آغازہزارہ کے کونوں میں صوبہ ہزارہ کے بورڈ نصب کر کے کر دیا گیا ہے اور کسی میں ہمت نہیں کہ وہ انہیں ہٹائیں کیونکہ یہ عوام کے دل کی آواز ہے۔
بابا حیدر زمان نے کہا کہ اس وقت تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے سے رابطوں میں مصروف ہیں تاہم عوام کے مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ۔ اس وقت اپوزیشن اور حکومت سب ہی حکومت کا حصہ ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ بارہ اپریل میں ہزارہ کے شہداء کی ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے جواقوام عالم، انسانی حقوق کی تنظیموں،عدلیہ اور دیگر اداروں کیلئے غور طلب ہے ۔ اس حوالے سے مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں تھا کہ عوام نے عوام کو مارا ہے جبکہ اس حوالے سے پوری دنیا کا میڈیا گواہ ہے کہ وہاں کس طرح نہتے عوام پر گولیاں برسائی گئیں۔ اور یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ جب ملک کی آبادی تین کروڑ تھی تو اس وقت بھی چار صوبے تھے اب جب اٹھارہ کروڑ ہو گئی ہے تو بھی صوبوں کی تعداد اتنی ہی ہے ۔ پنجاب میں دس کروڑ کی آبادی کے مسائل کو جب ایک شخص دیکھے گا تو مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں ۔ لہذا ملک کی ترقی کے لئے نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہے۔ ہم نے پاکستان سے الحاق کافیصلہ کیا تھا اور محب وطن پاکستانی ہیں اور ملک توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم لسانی بنیادوں پر صوبہ ہزارہ نہیں چاہتے بلکہ انتظامی قواعد و ضوابط کے تحت بھی صوبہ ہمارا حق ہے ۔ دنیا میں نئے صوبے کی بات کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت میں آ زادی کے وقت صرف سات صوبے تھے جو اب انتیس ہو گئے ہیں ۔ ترکی ، ایران سمیت یورپی ممالک میں بھی آبادی کو چھوٹے چھوٹے یونٹس میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ گڈ گورننس ہو، عوام کو آسانی سے حقوق مل سکیں اور بدعنوانی کا بھی خاتمہ ہو سکے ۔ ملک میں ون یونٹ کے بعد معاہدہ تھا کہ آبادی کے لحاظ سے بہاولپور کو ایک الگ صوبے کا درجہ دیا جائے گا تاہم بعد میں اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے وقت کانگریس نے کوشش کی تھی کہ ہزارہ کو ہندوستان کا حصہ بنایا جائے جس کی یہاں کے لوگوں نے شدید مخالفت کی اور پاکستان سے الحاق کیلئے مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ دیا یہی وجہ ہے کہ آج تک عوامی نیشنل پارٹی کاکوئی بھی رکن یہاں سے کامیاب نہیں ہو سکا۔ خیبر پختونخواہ کی حمایت کر کے مسلم لیگ ن نے بھی اب یہاں کے ووٹ بینک کا تقدس پامال کر دیا ہے جس پر یہاں سخت اشتعال پایا جاتا ہے اور آئندہ یہاں سے مسلم لیگ ن کی فتح کی کوئی امید نہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ مہتاب عباسی کے استعفیٰ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے موقف پر قائم نہیں رہے اور اگروہ سچے ہوتے تو کبھی اپنا استعفیٰ واپس نہ لیتے ۔
آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق سوال پر بابا حیدر زمان کا کہنا تھا کہ ابھی تو وہ ایک تحریک کا حصہ ہیں اورہماری تمام تر توجہ اپنے مقصد کے حصول پر ہے ۔ یہاں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو عوام کے حقوق کی بات کرے لہذا ہم یہاں متبادل قیادت کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں وہ صرف یہاں کے لوگوں کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، اگر کوئی ہماری تحریک سے سیاسی فوائد اٹھانے کا سوچتا ہے تووہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، ہم نہ بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ۔
تحریک کو فنڈنگ سے متعلق سوال پرانہوں نے کہا کہ ہم کسی سے فنڈز نہیں لینا چاہتے اور نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ہم کسی کے غلام نہیں بننا چاہتے ۔ یہ عوامی تحریک ہے اور ہمیں کسی کو گھر سے بلانے کی ضرورت نہیں، لوگ خود ہی اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں البتہ ایبٹ آباد میں جودفتر ہے اس کے اخراجات ہم خود آپس میں مل بانٹ کر چلاتے ہیں ۔
تحریک ہزارہ کا پس منظر اور ہزارہ ڈویژن
ہزارہ ڈویژن ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، کوہستان اور بٹگرام اضلاح پر مشتمل ہے۔ اس خطے کی آبادی 80لاکھ کے قریب ہے جس میں ستر فیصد آبادی کی زبان ہندکو ہے ۔اس حلقے کی مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی سات اور صوبائی اسمبلی کی بیس نشستیں ہیں ۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کی ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں دو، دو جبکہ ہری پور، بٹگرام اور کوہستان کی ایک، ایک نشست شامل ہے جبکہ ایبٹ آباد میں پانچ، مانسہرہ میں چھ، ہری پورمیں چار، بٹگرام میں دو اور کوہستان میں تین صوبائی نشستیں ہیں ۔
ہزارہ ہمیشہ مسلم لیگ کا گڑھ رہا ہے یہاں کے لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد سربراہ مسلم لیگ خان عبدالقیوم ہزارہ میں طاقت کا سرچشمہ تھے۔ مسلم لیگ نو ن کے قیام کے بعد یہاں نواز شریف کا راج رہا اور لاہور کی طرح ہزارہ بھی مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک رہا ۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے پیر صابر شاہ اور اس کے بعد سردار مہتاب عباسی وزیراعلیٰ رہے ۔
اگر چہ دو ہزار دو میں مسلم لیگ ن کی قیادت کی جلاوطنی کے باعث سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے متعدد ساتھیوں نے مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم پر یہاں سے کامیابی حاصل کی تاہم 2008 کے انتخابات میں ان میں سے اکثریت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھااور مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر ہزارہ کی اکثریتی جماعت بن گئی۔ تاہم اٹھارویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے میں حمایت پر یہاں مسلم لیگ ن کی سیاسی پوزیشن کمزور نظر آئی جبکہ یہاں کی اکثریت مسلم لیگ ن سے سخت ناراض بھی ہے ۔ مسلم لیگ (ق) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتو ں نے صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی، یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے بھی اس کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔