وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے غیر ملکی اثاثوں سے متعلق عدالتی حکم پر قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے لیکن آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جنہیں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور حزب مخالف کی پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے پر الزام تراشی کے لیے استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر تحقیقاتی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیتی ہیں۔
اختتام ہفتہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک تصویر زیر گردش ہوئی جس میں وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کو ایک بڑے سے کمرے میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھے دکھایا گیا ہے۔
یہ تصویر وفاقی جوڈیشل اکیڈمی کے اندر کی ہے جہاں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنی تفتیش کر رہی ہے۔ بظاہر تصویر میں حسین نواز کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے جوابدہی ہو رہی ہے یا پھر وہ تفتیشی عمل کے منتظر ہیں۔
تحریک انصاف نے الزام عائد کیا کہ یہ تصویر حکمران جماعت نے افشا کی ہے جس کا مقصد تحقیقاتی ٹیم کے کام پر اثر انداز ہونا ہے۔ حزب مخالف کی اس جماعت کے راہنماؤں کی طرف سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ تصویر کے افشا ہونے کی ذمہ دار وفاقی وزارت داخلہ ہے کیونکہ سکیورٹی انتظامات اس کے ماتحت ہیں اور یہ تصویر جوڈیشل اکیڈمی میں لگے نگرانی کے کیمروں سے حاصل کی گئی۔
تاہم وزارت داخلہ نے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کیا اور پیر کو وزارت کے ایک ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ان کے ماتحت کسی بھی محکمے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے دفتر یا ان وڈیو ریکارڈنگ تک رسائی نہیں ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اتنے حساس معاملے پر لوگوں کی طرف سے سیاست کرنا غیر مناسب ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حسین نواز نے تحقیقیاتی ٹیم کے دو ارکان کی غیرجانبداری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا لیکن عدالت عظمیٰ نے ان کے اعتراضات کو غیر ضروری قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) یہ کہتی آ رہی ہے کہ شریف خاندان ہر طرح سے اس تحقیقاتی عمل میں تعاون کے عزم پر قائم ہے اور پوری طرح تحقیقاتی ٹیم سے تعاون کر رہا ہے۔
لیکن گزشتہ ہفتے ہی ایک حکومتی سینیٹر کی طرف سے یہ متنازع بیان کہ حساب لینے والوں سے حساب لیا جائے گا حکومت پر مزید تنقید کا سبب بنا۔
وزیراعظم نے سینیٹر نہال ہاشمی کو ان کے اس بیان پر ایوان بالا کی نشست سے مستعفی ہونے کا کہتے ہوئے ان کے خلاف جماعت میں انضباطی کارروائی کا بھی حکم دے رکھا ہے جب کہ عدالت عظمیٰ نے اس کا ازخود نوٹس لیا جس کی پیر کو سماعت ہوئی۔
نہال ہاشمی کا موقف ہے کہ بیان میں ان کا اشارہ تحریک انصاف کی طرف تھا اور انھوں نے تحقیقاتی ٹیم یا سپریم کورٹ کے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں کیے۔