پاکستان کے مذہبی حلقوں نے برسلز میں ہونے و الے دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام کسی بھی صورت میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا اور ان کے بقول اسلامی دنیا کی سیاسی و مذہبی قیادت کو کھل کر ان لوگوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی جو اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
منگل کو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہوئے دہشت گرد حملوں میں کم ازکم 34 افراد ہلاک ہوئے اور ان کی ذمہ داری عراق و شام میں سرگرم انتہاپسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔
پاکستان کی ایک معروف مذہبی شخصیت راغب حسین نعیمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انتہا پسند و دہشت گرد کوئی بھی ہو اس کی کھل کر مذمت کرنی ضروری ہے۔
" ہم تو ببانگ دہل ماضی بھی اعلان کرتے آئے ہیں اور اب بھی اعلان کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے کہ برسلز جیسے واقعات اور دنیا میں دہشت گردی کے جو اور واقعات ہورہے ہیں انہیں جو کوئی بھی کررہا ہے انتہائی افسوسناک ہیں اور ان کی حمایت نہیں کی جاسکتی ہے اور اگر اسلام کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو اس طرح کے واقعات کا کوئی بھی جواز نظر نہیں آتا ہے"۔
پاکستان علما کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور اسلام میں کوئی تعلق نہیں ہے اور دہشت گردی کے خاتمے اور اس کے تدارک کے لیے عسکری کوششوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی محاذ پر بھی کوششیں کرنا ہوں گی۔
''جو دین یہ کہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے و ہ کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ آپ بے گناہ انسانوں کو چوکوں پر چوراہوں پر اور ائیرپورٹس پر قتل کردیں ۔۔اس بات کو پھیلانے کی ضرورت ہے یہ عسکری اور نظریاتی لڑائی ہے جس کو دونوں محاذوں پر لڑنے کی ضرورت ہے بدقسمتی یہ ہے کہ مغربی دنیا بھی اور اسلامی حکمران بھی عسکری محاذ کی طرف تو جارہے ہیں ںظرتی محاذ کی طرف نہیں جارہے ہیں جب تک سپلائی لائن بند نہیں ہو گی اس وقت تک یہ معاملہ حل نہیں ہوگا اور سپلائی لائن نظریاتی محاذ پر بند ہوگی اور نظریاتی اور فکری محاذ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے"۔
طاہر اشرفی نے کہا کہ انتہا پسند اور دہشت گرد چاہے مسلمانوں میں سے ہوں یا غیر مسلموں میں سے ہوں انہیں اسی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور انہیں کسی مخصوص دین کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔ ان کے بقول اس عفریت کے خاتمے کے لیے سب کو متحد ہو کر عالمی سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی۔