آئین میں مجوزہ اٹھارویں ترمیم پر قومی اسمبلی میں بحث دوسرے روز بھی جاری رہی لیکن اس مسودے میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے خیبر پختونخواہ رکھنے کی تجویز کے خلاف ہزارہ ڈویژن کے تمام اضلاع بشمول ایبٹ آبادمیں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
علاقے میں کاروباری سرگرمیاں اور تعلیمی ادارے بند ہیں اور مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ انھیں خیبر پختونخواہ قبول نہیں لیکن اگر پارلیمان میں یہ نام منظور کرلیا جاتا ہے تو پھر ہزارہ ڈویژن کو بھی صوبے کا درجہ دیا جائے۔
ان مظاہروں کی قیادت گوہر ایوب اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والے دیگر سیاسی رہنما کررہے ہیں جب کہ پارلیمنٹ میں مجوزہ اٹھارویں ترمیم پر بحث کے دوران ہزارہ ڈویژن کی نمائندگی کرنے والے اراکین بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شریک ہیں۔
صوبہ سرحد میں برسراقتدارعوامی نیشنل پارٹی کے قائدین کا کہنا ہے کہ وہ ہزارہ ڈویژن سے کیے جانے والے مطالبات کے حوالے سے وہاں کے سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کرکے اس مسئلے کو حل کرلیں گے۔ یہ یقین دہانی بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کرائی۔
خیال رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی ایک طویل عرصے سے ملک کے دوسرے صوبوں کے ناموں کی طرح صوبہ سرحدکویہاں آبادپشتون قوم سے منسوب کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے لیکن ہزارہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما عوامی نیشنل پارٹی کے اس مئوقف سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ہزارہ ڈویژن کی 35لاکھ آبادی کی اکثریت کی مادری زبان پشتو نہیں۔
پارلیمان میں ایک اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ق بھی صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھنے کی مخالفت کر رہی ہے اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے مسودے پر دستخط کرنے کے باوجود اس شق پر جماعت نے اپنا اختلافی نوٹ آئینی کمیٹی کو دیاتھا۔