صوبہ سرحد کانام خیبر پختون خواہ رکھنے کے خلاف ایبٹ آباد میں پیر کو پرتشد د مظاہروں میں کم از کم پانچ افراد کی ہلاکت کے خلاف منگل کو ایبٹ آباد سمیت ہزارہ ڈویژن میں سوگ منایاجارہا ہے ۔ ہزارہ ڈویژن کی مقامی قیادت نے تین روز سوگ کا اعلان کیا تھا اور منگل کو بھی مظاہرین سٹرکوں پر موجود ہیں۔ جب کہ اطلاعات کے مطابق ایبٹ آباد اور ہری پورسمیت ہزارہ ڈویژن کے دیگر علاقوں میں کاروباری مراکز بند ہیں۔ ایک روز قبل ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں مظاہرین اور پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں افراد زخمی ہو گئے تھے۔
خیبر پختون خواہ کے نام کے خلاف ہزارہ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں کئی روز سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا لیکن پیر کو ان میں اچانک غیر معمولی شدت آگئی اور خاص طور پر ایبٹ آباد میں تما م دن پولیس اور مشتعل مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔ مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے سرکاری املاک اور گاڑیوں کو آگ بھی لگائی اور کئی مقامات پرمصروف شاہراوں کو ٹائر جلا کر بند بھی کردیا۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے پولیس کو مظاہرین پر گولیاں چلانے کا حکم نہیں دیا گیا اور حقائق جاننے کے لیے ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے۔
پیر کی شام اسلام آباد میں جب سینٹ کا اجلاس شروع ہوا تو مسلم لیگ ن ، مسلم لیگ ق، جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اراکین نے پولیس کی طرف سے مظاہرین پر گولیاں چلانے کے اقدام اور اس کے نتیجے میں کئی افراد کی ہلاکت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ہزارہ ڈویژن کے ڈی آئی جی پولیس کی معطلی کا مطالبہ کیا اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دوسری جماعتوں پر زور دیا کہ وہ صوبے کے نام کے معاملے کا ازسر نو جائزہ لیں تاکہ حالات مزید قابو سے باہر نہ ہوں۔
خیال رہے کہ ہزارہ میں ہونے والے مظاہروں کے قائدین کا مئوقف ہے کہ صوبہ سرحد کا نیا نام لسانی بنیادوں پر رکھا جارہاہے جو ان کے لیے قابل قبول نہیں اور اس صورت میں وہ بھی اپنے علاقے کو ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے پر حق بجانب ہیں۔ تاہم صوبے میں حکمران جماعت عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ صوبہ سرحد کا موجودہ نام انگریزوں کے دور حکومت میں رکھا گیا تھا جسے ان کے بقول بدلنا کوئی انہونی بات نہیں۔ قومی اسمبلی نے اٹھارویں آئینی ترمیم کو پچھلے ہفتے دو تہائی سے زائد اکثریت سے منظور کیا تھا اور اس مسودے میں صوبہ سرحد کا نیا نام خبیر پختون خواہ رکھا گیا ہے ۔ تاہم پارلیمان کے ایوان بالا یا سینٹ سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ی کے بعد ہی اٹھارویں ترمیم آئین کا حصہ بن سکتی ہے ۔