پاکستان میں مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب سے مختلف علاقوں میں اب تک 25 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوچکے ہیں اور تقریباً 15 لاکھ ایکڑ ارازعی پر کھڑی فصلیں بھی تباہ ہوئیں۔
سیلاب کے باعث پنجاب کے وسطی اور جنوبی اضلاع میں کاشت کی جانے والی نقد آور فصلوں یعنی چاول، کپاس اور گنے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
تاحال سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے لیکن کسانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ایگری فورم پاکستان کے سربراہ ابراہیم مغل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی گنے، چاول اور کپاس کی فصلوں کے علاوہ سبزیوں اور چارے کے کھیت بھی سیلابی ریلے کی زد میں آئے جب کہ ہزاروں مویشی بھی اس کا شکار ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ کپاس سے تیار کردہ مصنوعات اور چاول بڑے پیمانے پر برآمد بھی کیے جاتے ہیں لہذا سیلاب سے ان فصلوں کو پہنچنے والے نقصان سے خدشہ ہے کہ پاکستان کو تجارتی خسارے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
" سولہ ساڑھے سولہ ارب ڈالر کی کپاس اور اس کی مصنوعات کی برآمدات ہوتی ہیں لہذا بڑھنے کی بجائےان کے کم ہونے کا اندیشہ ہے دوسرا دو ارب ڈالر کا ہماراچاول برآمد ہوتا ہے اس دفعہ دس لاکھ ٹن چاول بھی نہیں ملے گا۔ اندیشہ ہے کہ دس سے پندرہ ہزارمویشیوں کا بھی نقصان ہوا ہے تیسری بڑی برآمدات چمڑے اور چمڑے کی مصنوعات کی ہوتی ہیں اور وہاں اس قدر پریشانی ہے کہ وہ برآمدات بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔"
ان کے بقول ایک اندازے کے مطابق فصلوں کی تباہی سے زرعی شعبے کو 260 ارب روپے تک کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ادھر پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام شروع ہونے سے قبل نقصانات کا اندازہ لگانے کا کام جاری ہے جب کہ مختلف علاقوں میں امدادیسرگرمیاں بھی جاری ہیں۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر لوگوں کو یقین دلایا کہ انھیں امدادی رقوم کی فراہمی بھی جلد ہی شروع کر دی جائے گی۔
"امید ہے کہ امدادی رقوم کی پہلی قسط 27 یا 28 تاریخ سے دینا شروع کر دی جائے گی اور عید سے پہلے پہلے آپ لوگوں کو یہ رقم مل جائے گی۔"
سیلاب پنجاب میں تباہی مچانے کے بعد اس وقت سندھ سے گزر رہا ہے لیکن یہاں اس کی شدت قدرے کم ہے اور حکام کے بقول دریائے سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کی توقع نہیں۔