جمعے کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے جاری والے ایک بیان میں رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انسانی سمگلنگ کے انسداد کے لیے کوششوں میں بہتری کے باوجود پاکستانی حکومت کی طرف سے اس میں ملوث افراد کے خلاف کوئی مقدمہ یا کارروائی رپورٹ نہیں کی گئی اگرچہ حکام نے جنسی اور جبری مشقت کے کئی واقعات رپورٹ کیے ہیں۔
اکتوبر2009ء تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے سندھ کے چار اضلاع سے جبری مشقت کرنے والے تقریباً 650 افراد کو بیگار کیمپوں سے رہائی دلوائی۔
جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس کا کام قومی سطح پرصلاح ومشورہ کرکے ایک مسودہ تیار کرکے انسداد جبری مشقت کے قانون میں اصلاحات کرکے اسے مضبوط اور مئوثر بنانا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے عمان میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے لیے وہاں قائم اپنے دفاتر کے ذریعے طبی اور نفسیاتی علاج کی سہولتوں کا انتظام بھی کیا۔علاوہ ازیں پنجاب اور صوبہ سرحد میں جبری مشقت سے آزاد ہونے والوں کی بحالی اور قانونی مدد کے لیے کی جانے والی کوششوں کا دائرہ کار صوبہ سند ھ اور بلوچستان تک بڑھایا گیا ہے۔
امریکہ نے پاکستان کا نام 2009ء میں ان ملکوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جو انسانی سمگلنگ کا گڑھ یا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔