پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں کم ازکم تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو میران شاہ کے قریب ماچس کیمپ نامی علاقے اور میرعلی میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
یہ کارروائیاں دو روز قبل بدھ کو شروع کی گئی تھیں جس میں اب تک 70 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جا چکا ہے۔ فوج کے مطابق مرنے والوں میں غیر ملکی جنگجوؤں سمیت اہم شدت پسند کمانڈر بھی شامل ہیں۔
بدھ ہی کو شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر حملہ کرکے ایک افسر سمیت چار اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں سکیورٹی فورسز کو جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد حاصل ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور یہاں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے جانی نقصان کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً نا ممکن ہے۔
سکیورٹی فورسز نے اس سے قبل بھی شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی کی تھیں لیکن حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکراتی عمل کے دوران شدت پسندوں کی طرف سے فائر بندی کے اعلان کے بعد سکیورٹی فورسز نے بھی یہ کارروائیاں روک دی تھیں۔
تاہم رواں ماہ خیبر پختونخواہ، مہمند اور باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ شدت پسندوں کی طرف سے کسی بھی طرح کی پرتشدد کارروائی کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔
طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے مابین ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد سے تعطل کا شکار ہے جس کے فوری طور پر بحال ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔
دریں اثناء گورنر خیبرپختونخواہ کی زیر صدارت جمعہ کو ایک اہم اجلاس ہوا جس میں شدت پسندوں کے خلاف ہونے والی ٹارگٹڈ کارروائیوں کے علاوہ سلامتی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
ادھر ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ مرکزی حکومت شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے کسی ممکنہ ردعمل سے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلام آباد سمیت متعدد شہروں میں رینجرز اور فوج کی مدد بھی حاصل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
سکیورٹی فورسز نے جمعہ کو میران شاہ کے قریب ماچس کیمپ نامی علاقے اور میرعلی میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
یہ کارروائیاں دو روز قبل بدھ کو شروع کی گئی تھیں جس میں اب تک 70 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جا چکا ہے۔ فوج کے مطابق مرنے والوں میں غیر ملکی جنگجوؤں سمیت اہم شدت پسند کمانڈر بھی شامل ہیں۔
بدھ ہی کو شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر حملہ کرکے ایک افسر سمیت چار اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں سکیورٹی فورسز کو جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد حاصل ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور یہاں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے جانی نقصان کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً نا ممکن ہے۔
سکیورٹی فورسز نے اس سے قبل بھی شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی کی تھیں لیکن حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکراتی عمل کے دوران شدت پسندوں کی طرف سے فائر بندی کے اعلان کے بعد سکیورٹی فورسز نے بھی یہ کارروائیاں روک دی تھیں۔
تاہم رواں ماہ خیبر پختونخواہ، مہمند اور باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ شدت پسندوں کی طرف سے کسی بھی طرح کی پرتشدد کارروائی کا سختی سے جواب دیا جائے گا۔
طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل حکومتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے مابین ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد سے تعطل کا شکار ہے جس کے فوری طور پر بحال ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔
دریں اثناء گورنر خیبرپختونخواہ کی زیر صدارت جمعہ کو ایک اہم اجلاس ہوا جس میں شدت پسندوں کے خلاف ہونے والی ٹارگٹڈ کارروائیوں کے علاوہ سلامتی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
ادھر ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ مرکزی حکومت شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے کسی ممکنہ ردعمل سے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلام آباد سمیت متعدد شہروں میں رینجرز اور فوج کی مدد بھی حاصل کرنے پر غور کر رہی ہے۔