مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے مجوز ہ اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تعیناتی سے متعلق شق پر دو روز قبل دیے گئے اپنے بیان کا ایک بار پھر دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کی تقرری کا اختیار صرف ایک شخص کے پاس نہیں ہونا چاہیے بلکہ مجوزہ ترمیم میں ججوں کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کو سونپی جانی چاہیے۔
ہفتے کے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اپنے خلاف ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کا مئوقف پاکستانیت پر مبنی ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں بھی کہا کہ اس مسئلے کو جذبات کی بجائے اتفاق رائے سے حل کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ پارلیمان کی ایک نمائندہ کمیٹی جس میں مسلم لیگ (ن) کے نمائندے بھی شامل ہیں ، تقریباً ایک سال کی طویل مشاورت کے بعد آئین میں فوجی حکمرانوں کے دور میں کی جانے والی متنازع ترامیم کو مجوزہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ختم کرنے کے لیے جب ایک متفقہ دستاویز مکمل کرنے کے قریب تھی تو نواز شریف نے ججوں کی تعیناتی اور صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کی شقوں پر اپنی جماعت کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا کے ان معاملات پر اتفاق رائے قائم ہونے تک آئین میں مجوزہ ترامیم کا مسودہ پارلیمان میں پیش نہ کیا جائے۔ اُن کے اس بیان کے بعد پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی۔
واضح رہے کہ آئینی اصلاحات تیا ر کرنے والی کمیٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ تقریباََ سو سے زائد شقوں پر مشتمل اصلاحات کے اس پیکج میں صوبائی خود مختاری، اختیارات کی ایوان صدر سے پارلیمان اور وزیر اعظم کو منتقلی کے علاوہ وفاق کو مضبوط بنانے کی تجاویز شامل ہیں تاکہ مجوزہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کے متفقہ آئین کو اصلی شکل میں بحال کیا جا سکے۔
ادھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ہفتے کے روز گوجرانولہ میں جلسہ عام سے خطاب میں ایک بار پھر کہا کہ اُن کی جماعت 1973 ء کے آئین کو اصلی شکل میں بحال کرے گی۔