اسلام آباد —
پاکستان، افغانستان اور ترکی کا سہ فریقی سربراہ اجلاس جمعرات کو انقرہ میں ہوا جس میں افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نواز شریف پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں جب کہ اُن کے ہمراہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر السلام بھی سہ فریقی اجلاس میں شریک ہیں۔
جمعرات کی صبح وزیراعظم نواز شریف، افغان صدر حامد کرزئی، ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردوان کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں سربراہ اجلاس کے ایجنڈے پر بات چیت کی گئی۔
اس اجلاس کا مقصد افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے اعلیٰ مذاکرات کے ذریعے تینوں ملکوں کے درمیان تعاون کو مزید موثر بنانا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ سہ فریقی اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے انقرہ اور اسلام آباد کابل کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔
تسنیم اسلم نے کہا کہ یہ سہ فریقی سربراہ اجلاس اس لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب افغانستان میں رواں سال انتخابات ہونے جا رہے ہیں جب کہ اسی برس وہاں سے غیر ملکی افواج کا انخلا بھی ہونا ہے جس کے بعد افغان سیکورٹی فورسز کو سلامتی کی ذمہ داریاں خود سنبھالنا ہوں گی۔
ترکی، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی عمل کا آغاز 2007ء میں ہوا تھا اور اس کا آخری اجلاس دسمبر 2012ء میں انقرہ میں ہوا۔
وزیراعظم نواز شریف انقرہ میں ترک قیادت سے الگ ملاقات بھی کریں گے جس میں دوطرفہ تعلقات پر بات چیت کی جائے گی۔
جب کہ وزیراعظم نواز شریف کی صدر حامد کرزئی سے ملاقات میں افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی مصالحتی کوششوں پر بات چیت متوقع ہے۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ پڑوسی ملک میں قیام امن کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے گا اور مذاکرات کے ذریعے وہاں مفاہمت کی کوششوں میں پیش رفت کے لیے اسلام آباد اپنے ہاں قید متعدد افغان طالبان قیدیوں کو کابل حکومت کی درخواست پر رہا بھی کر چکا ہے۔
نواز شریف پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں جب کہ اُن کے ہمراہ بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر السلام بھی سہ فریقی اجلاس میں شریک ہیں۔
جمعرات کی صبح وزیراعظم نواز شریف، افغان صدر حامد کرزئی، ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردوان کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں سربراہ اجلاس کے ایجنڈے پر بات چیت کی گئی۔
اس اجلاس کا مقصد افغانستان میں دیرپا امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے اعلیٰ مذاکرات کے ذریعے تینوں ملکوں کے درمیان تعاون کو مزید موثر بنانا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ سہ فریقی اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے انقرہ اور اسلام آباد کابل کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔
تسنیم اسلم نے کہا کہ یہ سہ فریقی سربراہ اجلاس اس لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب افغانستان میں رواں سال انتخابات ہونے جا رہے ہیں جب کہ اسی برس وہاں سے غیر ملکی افواج کا انخلا بھی ہونا ہے جس کے بعد افغان سیکورٹی فورسز کو سلامتی کی ذمہ داریاں خود سنبھالنا ہوں گی۔
ترکی، افغانستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی عمل کا آغاز 2007ء میں ہوا تھا اور اس کا آخری اجلاس دسمبر 2012ء میں انقرہ میں ہوا۔
وزیراعظم نواز شریف انقرہ میں ترک قیادت سے الگ ملاقات بھی کریں گے جس میں دوطرفہ تعلقات پر بات چیت کی جائے گی۔
جب کہ وزیراعظم نواز شریف کی صدر حامد کرزئی سے ملاقات میں افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی مصالحتی کوششوں پر بات چیت متوقع ہے۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ وہ پڑوسی ملک میں قیام امن کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے گا اور مذاکرات کے ذریعے وہاں مفاہمت کی کوششوں میں پیش رفت کے لیے اسلام آباد اپنے ہاں قید متعدد افغان طالبان قیدیوں کو کابل حکومت کی درخواست پر رہا بھی کر چکا ہے۔