بیجنگ پیرا اولمپک گیمز میں روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں پر پابندی عائد
بین الاقوامی پیرا اولمپک کمیٹی (آئی پی سی) نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے خلاف کمیٹی نے سرمائی پیرا اولمپک گیمز میں روس اور بیلاروس کے کھلاڑیوں کی شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس لیے بھی ضروری ہو گیا تھا کیونکہ متعدد ٹیموں نے روس اور بیلاروس کی جانب سے شرکت کی صورت میں کھیلوں کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تھی۔
ایک ہفتہ قبل یوکرین کے خلاف کیے جانے والے حملے میں بیلاروس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
بین الاقوامی کمیٹی نےبتایا ہے کہ اس اقدام سے چند روز قبل ان دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا تھا کہ وہ چاہیں تو غیروابستہ کھلاڑیوں کے طور پر مقابلوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔
اعلان میں بتایا گیا ہے کہ انتظامی ادارے نے قواعد و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا، کیونکہ کھلاڑی کسی قسم کی جارحیت کا حصہ نہیں ہوا کرتے۔
تاہم، بیجنگ میں پریس کانفرنس میں آئی پی سی کے صدر اینڈریو پارسن نے بتایا ہے کہ دیگر ملکوں کی نیشنل پیرا اولمپک کمیٹیوں نے اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فیصلے پر نظر ثانی نہ کی گئی تو وہ گیمز کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔
فوری جنگ بندی کے لیے یوکرین، روس مذاکرات کا دوسرا دور جاری
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے مشیر، میخائلوف پوڈولک نے جمعرات کو ایک ٹوئٹ میں بتایا ہے کہ ان کے وفد کے اس وقت روس کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جن کا مقصد موجودہ بحران کو ختم کرنا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یوکرین عارضی صلح اور فوری جنگ بندی کا خواہاں ہے، اور انسانی بنیادوں پر جنگ زدہ علاقوں سے شہری آبادی کی محفوظ مقامات کی جانب منتقلی کی کوششوں کا حامی ہے۔
یوکرین سے اب تک 10 لاکھ سے زیادہ افراد ہمسایہ ملکوں میں جا چکے ہیں، عالمی ادارہ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے بتایا ہے کہ جب سے یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کا آغاز ہوا ہے، 10 لاکھ یوکرینی وطن چھوڑ کو ہمسایہ ملکوں میں چلے گئے ہیں، جو اس صدی کا بے دخل ہونے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
عالمی ادارے کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روسی افواج نے یوکرین کی بندرگاہ اور حکمت عملی کے حامل دو شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ جب کہ روسی فوج نے ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیف پر بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔
دریں اثنا، دنیا میں روس تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس وقت تہنائی مزید بڑھی جب اس کے خلاف کثرت رائے سے مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔
قرارداد میں نہ صرف یوکرین کے خلاف جارحیت پر روس کی شدید مذمت کی گئی بلکہ روس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فی الفور اپنی افواج یوکرین سے واپس بلائے۔
جمعرات کو یوکرین اور روس کے مابین بات چیت کا دوسرا دور منعقد ہونے کی توقع ہے، جس کا مقصد فوری طور پر لڑائی بند کرنا ہے۔
یوکرینی بندرگاہ پر حملے کی زد میں آنے والے بنگلہ دیشی بحری جہاز کا عملہ محفوظ مقام پر منتقل
بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ، شہریار عالم نے جمعرات کی شام بتایا ہے کہ یوکرین کی اولیویا بندرگاہ پر لنگرانداز بحری جہاز جسے راکٹ لگنے سے نقصان پہنچا تھا ، اس کے 28 ارکان کے عملے کو محصور علاقے سے نکال کر نسبتاً محفوظ مقام کی جانب منتقل کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ عملے کے ارکان کو 'بنگلار سمردھی' کارگو شپ سے نکال لیا گیا ہے، جو میزائل حملے کی زد میں آ گیا تھا، جس میں جہاز کا ایک انجنیئر، حدیث الرحمان ہلاک ہو گیا تھا۔
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ میں خارجہ امور کے سیکریٹری، مسعود بن مومن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ پولینڈ میں بنگلہ دیش کی سفیر، سلطانہ لیلی حسین نے بحری جہاز کے کپتان سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔ انھوں نےبتایا کہ حدیث الرحمان کی لاش کو پولینڈ پہنچایا جا رہا ہے۔
مسعود بن مومن نے کہا کہ اس وقت 600 کے قریب بنگلہ دیشی شہری پولینڈ میں موجود ہیں، جن میں سےسرکاری طور پر 100 افراد کے پولینڈ میں رکنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔
بحری جہاز پر راکٹ گرنے سے ہلاک ہونے والے 29 سالہ تھرڈ انجنیئر، حدیث الرحمان کی وطن واپسی پر شادی طے تھی۔ بدھ کو ہلاکت سے قبل ان کی ٹیلی فون پر اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی سے بات ہوئی تھی۔ حدیث الرحمان کے چھوٹے بھائی غلام رحمان پرنس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بحری جہاز جنگ کی وجہ سے یوکرین کی بندرگاہ پر محصور ہو گیا تھا اور وہ واپسی کی اجازت کا منتظر تھا۔