واشنگٹن —
شام کے ایک اعلیٰ سفارتی عہدیدار نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے ایک فوجی مرکز پر حملے کا "حیران کن" جواب دے سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق لبنان میں تعینات شام کے سفیر علی عبدالکریم علی نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع ایک فوجی تحقیقی مرکز پر بمباری کا بدلہ لینے کے لیے ان کا ملک کوئی بھی "حیران کن فیصلہ" کرسکتا ہے۔
شامی سفیر نے ممکنہ فیصلے کی وضاحت نہیں کی ہے تاہم اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ شامی حکومت اس وقت اپنی سرزمین اور خود مختاری کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے۔
خیال رہے کہ شام اور اسرائیل کے درمیان ماضی میں بھی مختصر دوورانیے کی کئی جنگیں ہوچکی ہیں جب کہ 2007ء میں بھی اسرائیلی طیاروں نے شام کی ایک مبینہ جوہری تنصیب پر بمباری کی تھی تاہم دمشق حکومت نے اس کے جواب میں کوئی عسکری کاروائی نہیں کی تھی۔
بدھ کو علی الصباح کیے جانے والے اس حملے میں شامی فوج کے مطابق دو افرادہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے تھے۔
شام کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے جس عمارت کو نشانہ بنایا تھا وہ ایک سائنسی مرکز کی تھی جہاں دفاعی حکمتِ عملی سے متعلق تحقیقی کام کیا جاتا تھا۔
گزشتہ روز شامی افواج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے جنگی طیاروں نے انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے کوہِ ہرمن کی جانب سے شام کی سرحد پار کی تھی جس کے باعث انہیں ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکا تھا۔
بیان کے مطابق اسرائیلی طیارے جس راستے سے آئے تھے، بمباری کے بعد اسی راستے سے بحفاظت واپس چلے گئے تھے۔
اسرائیل ماضی میں بھی اس طرح کی "فوجی کاروائیوں" پر کسی تبصرے سے گریز کرتا آیا ہے اور بدھ کو بھی مختلف ذرائع ابلاغ کی جانب سے رابطہ کرنے پر اسرائیلی حکام نے حملے کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق لبنان میں تعینات شام کے سفیر علی عبدالکریم علی نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے شام کے دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع ایک فوجی تحقیقی مرکز پر بمباری کا بدلہ لینے کے لیے ان کا ملک کوئی بھی "حیران کن فیصلہ" کرسکتا ہے۔
شامی سفیر نے ممکنہ فیصلے کی وضاحت نہیں کی ہے تاہم اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ شامی حکومت اس وقت اپنی سرزمین اور خود مختاری کے دفاع کی جنگ لڑ رہی ہے۔
خیال رہے کہ شام اور اسرائیل کے درمیان ماضی میں بھی مختصر دوورانیے کی کئی جنگیں ہوچکی ہیں جب کہ 2007ء میں بھی اسرائیلی طیاروں نے شام کی ایک مبینہ جوہری تنصیب پر بمباری کی تھی تاہم دمشق حکومت نے اس کے جواب میں کوئی عسکری کاروائی نہیں کی تھی۔
بدھ کو علی الصباح کیے جانے والے اس حملے میں شامی فوج کے مطابق دو افرادہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے تھے۔
شام کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے جس عمارت کو نشانہ بنایا تھا وہ ایک سائنسی مرکز کی تھی جہاں دفاعی حکمتِ عملی سے متعلق تحقیقی کام کیا جاتا تھا۔
گزشتہ روز شامی افواج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے جنگی طیاروں نے انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے کوہِ ہرمن کی جانب سے شام کی سرحد پار کی تھی جس کے باعث انہیں ریڈار پر نہیں دیکھا جاسکا تھا۔
بیان کے مطابق اسرائیلی طیارے جس راستے سے آئے تھے، بمباری کے بعد اسی راستے سے بحفاظت واپس چلے گئے تھے۔
اسرائیل ماضی میں بھی اس طرح کی "فوجی کاروائیوں" پر کسی تبصرے سے گریز کرتا آیا ہے اور بدھ کو بھی مختلف ذرائع ابلاغ کی جانب سے رابطہ کرنے پر اسرائیلی حکام نے حملے کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا۔