واشنگٹن —
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے سلامتی سے متعلق میونخ میں جاری اجلاس سےباہر شام کے اپوزیشن راہنما سےپہلی براہِ راست گفتگو کی ہے۔
لاروف اور معاذ الخطیب کے درمیان ہفتے کوہونے والی اِس ملاقات میں امریکی نائب صدر جو بائیڈن اور اقوام متحدہ کے ایلچی لخدر براہیمی شامل نہیں تھے، باوجود یہ کہ ابتدائی مشورہ اس بات کا تھا کہ جنوبی جرمنی میں چاروں کی ملاقات متوقع ہے۔ اس کے برعکس، بائیڈن نے لاروف، براہیمی اور الخطیب سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
اس سال میونخ میں ہونے والی سلامتی سے متعلق کانفرنس کا مقصد شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ لانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوششیں کرنا ہے۔ اس سے قبل اسی ہفتے، الخطیب نے کہا تھاکہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
وائٹ ہاؤس نےکہا ہے کہ لاروف کے ساتھ ملاقات میں نائب صدر نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کےحصول کے لیے روس اور امریکہ کی طرف سے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
شام کا بحران طےکرنے کے معاملے پر امریکہ اور روس کےدرمیان بہت نااتفاقی ہے۔
کانفرنس کے دوران، بائیڈن نےشام کی اپوزیشن کے لیے امریکی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد اب اپنے ملک کی ’قیادت کے قابل نہیں رہے‘ اور اُنھیں ’ اب چلے جانا چاہیئے‘۔
کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ یہ شرط اب قابلِ قبول نہیں رہی۔
لاروف اور معاذ الخطیب کے درمیان ہفتے کوہونے والی اِس ملاقات میں امریکی نائب صدر جو بائیڈن اور اقوام متحدہ کے ایلچی لخدر براہیمی شامل نہیں تھے، باوجود یہ کہ ابتدائی مشورہ اس بات کا تھا کہ جنوبی جرمنی میں چاروں کی ملاقات متوقع ہے۔ اس کے برعکس، بائیڈن نے لاروف، براہیمی اور الخطیب سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔
اس سال میونخ میں ہونے والی سلامتی سے متعلق کانفرنس کا مقصد شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ لانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوششیں کرنا ہے۔ اس سے قبل اسی ہفتے، الخطیب نے کہا تھاکہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
وائٹ ہاؤس نےکہا ہے کہ لاروف کے ساتھ ملاقات میں نائب صدر نے بین الاقوامی امن اور سلامتی کےحصول کے لیے روس اور امریکہ کی طرف سے مل کر کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
شام کا بحران طےکرنے کے معاملے پر امریکہ اور روس کےدرمیان بہت نااتفاقی ہے۔
کانفرنس کے دوران، بائیڈن نےشام کی اپوزیشن کے لیے امریکی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار الاسد اب اپنے ملک کی ’قیادت کے قابل نہیں رہے‘ اور اُنھیں ’ اب چلے جانا چاہیئے‘۔
کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ یہ شرط اب قابلِ قبول نہیں رہی۔