افغانستان سے سُبکدوش ہونے والےا مریکی کمانڈر جنرل جان ایلن کی کارکردگی پر ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ انہوں نے اپنے ماتحت کمانڈروں، اُس ملک میں امریکی مشن کے اختتامی مرحلے اور افغانوں کی طویل المیعاد توقعات کے تقاضوں سے نمٹنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے ۔
اخبار کے بقول، جنرل ایلن کو اعتراف ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی اور واضح فتح کا وقت ایک نہیں ہوگا، بلکہ بسا اوقات ایسا ہوا ہےکہ جیسے جیسے سیکیورٹی میں پیش رفت ہوئی، نئے نئے مسائیل بھی کھڑے ہو ئے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ جنرل ایلن افغان عہدہ داروں بشمول صدر حامد کرزئی پر زور دیتے آئے ہیں کہ جن علاقوں میں کامیابی واضح ہے وہاں اچھا نظم و نسق یقینی بنایا جائے۔
لیکن، بسا اوقات ہوا یہ ہے کہ کنبہ پروری غالب رہی ہے یا پھر بدعُنوان لیڈر بدستُور اقتدار پر قابض رہے اور حکومت پر عوام کا اعتماد جاتا رہا۔ جنرل ایلن اور کرزئی کے متّضاد موقفوں کا ذکر کرتے ہوئے، اخبار نےصدر کرزئی کے چیف آف سٹاف عبدالکریم خرّم کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل ایلن اپنے ملک کے لئے کام کر رہے ہیں، جب کہ ہم اپنے ملک کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔
جنرل نے اخبار کو بتایا کہ بُری انتظامی کارکردگی کے نتیجے میں طالبان پھر سر اُٹھائیں گے اور مُجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور کنبہ پروری کے سرپرستوں اور حکومت کے کمزور اداروں کے درمیان اس وقت زندگی اور موت کی رسّہ کشی جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اداروں کی یہ کمزوری جُزوی طور پر صدر اوبامہ کو جنرل ایلن کی طرف سے اس تجویز کا باعث بنی کہ سنہ 2014 کے بعد بھی امریکہ کی کُچھ فوج افغانستان میں موجود رہنی چاہئے۔ سنہ 2014 کے بعد اُن کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ افغانستان کی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے لئے امریکی مشیروں کی ایک معتدبٕہ تعداد موجود ہوں اور اتنے امریکی فوجی دستیاب ہوں کہ انہیں فوجی تربیت دینے کے لئے کابل کے تربیتی مراکز میں بھیجا جائے اور اگر ممکن ہو تو انہیں ملک کی علاقائی پولیس اور فوجی کمانڈز میں بطور مشیر کے رہنے دیا جائے۔
جنرل ایلن نے اخبار کو بتایا کہ ہم اس مشن میں کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا حصول سنہ 2014 تک ممکن نہیں۔ اور ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے ہونگے کہ تبدیلی کے عشرے کے دوران یہ کامیابی ممکن ہو۔
’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کے ایک مضمو ن میں فلسطین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وُہ اسرائیل کو ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں لے جائے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ہیسٹننگز کالج کے پروفیسر جارج بشارت اس مضمون میں کہتے ہیں کہ فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض مالکی خود کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل مشرقی یروشلم اور مالے آدُو مِم کے درمیان خالی جگہ میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر سے باز نہ آیا، تو بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔
پروفیسر بشارت کہتے ہیں کہ اسرائیلی لیڈروں کو بجاطور پر پریشانی ہے۔ یہ عدالت جو سنہ 2002 میں قائم ہوئی تھی اس بات کی مجاز ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں ہونے والے بڑے بڑےجرائم جرائم مقدّمہ چلائے۔
وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2000 کے دوسرے انتفادہ کے بعد اسرائیلی فوج نے جنگ کے نئے قوانین بنانے کی کوشش میں جانتےبُوجھتےہوئےجنگی قوانین کی خلاف ورزی کرکے نئے قانونی نظرئیے وضع کئے تاکہ اپنی زیادتیوں کے لئے قانونی جواز پیدا کیا جائے۔
مثال کے طور پر سنہ 2002 میں اسرائیلی ایف 16 جنگی طیاروں نے غزّہ کی پٹی پر ایک گُنجان آباد علاقے میں ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ پر ایک ٹن وزنی بم گرایا جس میں حماس کے ایک لیڈر، اس کی بیوی اور پندرہ سال سے کم عمر کے سات بچوں کو ہلا ک کیا گیا۔ سنہ 2009 میں اسرائیلی توپ خانے نے غزّہ ہی میں ایک ہی خاندان کے 20 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا جنہوں نے اسرائیل ی کے کہنے پروہاں پناہ لے رکھی تھی۔
پروفیسر بشارت کہتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کو ایک قابض فوج کی پولیس کاروائی نہیں، بلکہ ایک ایسا مسلّح تصادم قرار دیتا ہےجو جنگ کے زمرے میں نہیں آتا۔
اس منطق کے تحت اسرائیل اپنے ایف 16 جیٹ طیارے اور اور دوسرے وفناک ہتھیار مغربی کنارے اور غزّہ کی آبادی کے خلاف استعمال کرتا ہےجس کے پاس اپنے دفاع کے لئے مُشکل ہی سے کوئی انتظام ہے۔ جس ٹھکانے کو اسرائیل نشانہ بنانا چاہے اگرمخصوص افراد وہاں سے انتباہ کے بعد وہاں سے نہ نکل سکیں تو انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حماس کے سولین ملازمین بشمول پولیس، جج، کلرک اور صحافی وغیرہ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتاہے۔
پروفیسر بشارت کہتے ہیں کہ اِن تمام حرکتوں کی وجہ سے اسرائیل کے سیاسی اور فوجی لیڈروں پر جنگی جرائیم کے لئے مقدّمہ چلایا جا سکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اسرائیلی عُہدہ داروں کے بیانوں سے یہ شواہد سامنے آئیں کہ اُن سے یہ حرکات اتّفاقی طور پر نہیں بلکہ عمداً سرزد ہوئی تھیں۔ اس لئے، جیسا کہ مضمون نگار نے لکھا ہے اسرائیل کو اس پر سب سے زیادہ تشویش ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر پر اُس کے خلاف فوجداری مقدّمہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس لئے، جیسا کہ پروفیسر بشارت کہتے ہیں، اسرائیل کو اس بات پر سب سے زیادہ تشویش ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر پر اس کے خلاف فوجداری مقدّمہ قائم ہو سکتا ہے۔
اخبار کے بقول، جنرل ایلن کو اعتراف ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی اور واضح فتح کا وقت ایک نہیں ہوگا، بلکہ بسا اوقات ایسا ہوا ہےکہ جیسے جیسے سیکیورٹی میں پیش رفت ہوئی، نئے نئے مسائیل بھی کھڑے ہو ئے ہیں۔
اخبار کہتا ہےکہ جنرل ایلن افغان عہدہ داروں بشمول صدر حامد کرزئی پر زور دیتے آئے ہیں کہ جن علاقوں میں کامیابی واضح ہے وہاں اچھا نظم و نسق یقینی بنایا جائے۔
لیکن، بسا اوقات ہوا یہ ہے کہ کنبہ پروری غالب رہی ہے یا پھر بدعُنوان لیڈر بدستُور اقتدار پر قابض رہے اور حکومت پر عوام کا اعتماد جاتا رہا۔ جنرل ایلن اور کرزئی کے متّضاد موقفوں کا ذکر کرتے ہوئے، اخبار نےصدر کرزئی کے چیف آف سٹاف عبدالکریم خرّم کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنرل ایلن اپنے ملک کے لئے کام کر رہے ہیں، جب کہ ہم اپنے ملک کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔
جنرل نے اخبار کو بتایا کہ بُری انتظامی کارکردگی کے نتیجے میں طالبان پھر سر اُٹھائیں گے اور مُجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور کنبہ پروری کے سرپرستوں اور حکومت کے کمزور اداروں کے درمیان اس وقت زندگی اور موت کی رسّہ کشی جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اداروں کی یہ کمزوری جُزوی طور پر صدر اوبامہ کو جنرل ایلن کی طرف سے اس تجویز کا باعث بنی کہ سنہ 2014 کے بعد بھی امریکہ کی کُچھ فوج افغانستان میں موجود رہنی چاہئے۔ سنہ 2014 کے بعد اُن کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ افغانستان کی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے لئے امریکی مشیروں کی ایک معتدبٕہ تعداد موجود ہوں اور اتنے امریکی فوجی دستیاب ہوں کہ انہیں فوجی تربیت دینے کے لئے کابل کے تربیتی مراکز میں بھیجا جائے اور اگر ممکن ہو تو انہیں ملک کی علاقائی پولیس اور فوجی کمانڈز میں بطور مشیر کے رہنے دیا جائے۔
جنرل ایلن نے اخبار کو بتایا کہ ہم اس مشن میں کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا حصول سنہ 2014 تک ممکن نہیں۔ اور ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے ہونگے کہ تبدیلی کے عشرے کے دوران یہ کامیابی ممکن ہو۔
’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کے ایک مضمو ن میں فلسطین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وُہ اسرائیل کو ہیگ کی بین الاقوامی عدالت میں لے جائے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ہیسٹننگز کالج کے پروفیسر جارج بشارت اس مضمون میں کہتے ہیں کہ فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض مالکی خود کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل مشرقی یروشلم اور مالے آدُو مِم کے درمیان خالی جگہ میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر سے باز نہ آیا، تو بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا۔
پروفیسر بشارت کہتے ہیں کہ اسرائیلی لیڈروں کو بجاطور پر پریشانی ہے۔ یہ عدالت جو سنہ 2002 میں قائم ہوئی تھی اس بات کی مجاز ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں ہونے والے بڑے بڑےجرائم جرائم مقدّمہ چلائے۔
وہ کہتے ہیں کہ سنہ 2000 کے دوسرے انتفادہ کے بعد اسرائیلی فوج نے جنگ کے نئے قوانین بنانے کی کوشش میں جانتےبُوجھتےہوئےجنگی قوانین کی خلاف ورزی کرکے نئے قانونی نظرئیے وضع کئے تاکہ اپنی زیادتیوں کے لئے قانونی جواز پیدا کیا جائے۔
مثال کے طور پر سنہ 2002 میں اسرائیلی ایف 16 جنگی طیاروں نے غزّہ کی پٹی پر ایک گُنجان آباد علاقے میں ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ پر ایک ٹن وزنی بم گرایا جس میں حماس کے ایک لیڈر، اس کی بیوی اور پندرہ سال سے کم عمر کے سات بچوں کو ہلا ک کیا گیا۔ سنہ 2009 میں اسرائیلی توپ خانے نے غزّہ ہی میں ایک ہی خاندان کے 20 سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا جنہوں نے اسرائیل ی کے کہنے پروہاں پناہ لے رکھی تھی۔
پروفیسر بشارت کہتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کو ایک قابض فوج کی پولیس کاروائی نہیں، بلکہ ایک ایسا مسلّح تصادم قرار دیتا ہےجو جنگ کے زمرے میں نہیں آتا۔
اس منطق کے تحت اسرائیل اپنے ایف 16 جیٹ طیارے اور اور دوسرے وفناک ہتھیار مغربی کنارے اور غزّہ کی آبادی کے خلاف استعمال کرتا ہےجس کے پاس اپنے دفاع کے لئے مُشکل ہی سے کوئی انتظام ہے۔ جس ٹھکانے کو اسرائیل نشانہ بنانا چاہے اگرمخصوص افراد وہاں سے انتباہ کے بعد وہاں سے نہ نکل سکیں تو انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حماس کے سولین ملازمین بشمول پولیس، جج، کلرک اور صحافی وغیرہ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتاہے۔
پروفیسر بشارت کہتے ہیں کہ اِن تمام حرکتوں کی وجہ سے اسرائیل کے سیاسی اور فوجی لیڈروں پر جنگی جرائیم کے لئے مقدّمہ چلایا جا سکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ اسرائیلی عُہدہ داروں کے بیانوں سے یہ شواہد سامنے آئیں کہ اُن سے یہ حرکات اتّفاقی طور پر نہیں بلکہ عمداً سرزد ہوئی تھیں۔ اس لئے، جیسا کہ مضمون نگار نے لکھا ہے اسرائیل کو اس پر سب سے زیادہ تشویش ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر پر اُس کے خلاف فوجداری مقدّمہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس لئے، جیسا کہ پروفیسر بشارت کہتے ہیں، اسرائیل کو اس بات پر سب سے زیادہ تشویش ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر پر اس کے خلاف فوجداری مقدّمہ قائم ہو سکتا ہے۔