افغانستان کی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی ولسی جرگہ کے اسپیکر نے کہا ہے کہ جنگ کسی بھی طور افغانستان اور خطے کے مسائل کا حل نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کا قیام صرف مذاکرات اور بات چیت ہی سے ممکن ہے اور اس ضمن میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغانستان کے ولسی جرگہ کے اسپیکر عبدالرؤف ابراہیمی ایک افغان وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے پر ہیں اور اس دوران انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق سے بھی ملاقات کی۔
پاکستان کی پارلیمان کے دورے کے موقع پر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں افغان ولسی جرگہ کے اسپیکر ابراہیمی نے کہا کہ ’’ہمارے خیال میں جنگ نا تو افغانستان اور نا خطے کے (مسائل کا ) حل ہے۔ ہم افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مذاکرات اور بات چیت کو اہمیت دیتے ہیں اور ہمارے خیال میں مذاکرات کے عمل کو جاری رکھ کر ہی اس خطے میں امن اور استحکام لایا جا سکتا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔
’’ہمارے خیال میں پاکستان خطے کے دیگر کے ممالک کے مقابلے میں افغان امن عمل میں ایک اہم کردار ادار کررہا ہے کیونکہ پاکستان بھی افغانستان کی طرح دہشت گردی کا شکاررہا ہے۔ پاکستان افغانستان کے عوام کے ساتھ اس عزم کا اعادہ بھی کر چکا ہے کہ وہ اس عمل میں ایک شراکت دار ہے اور ہمیں یقین ہے کہ (ان کوششوں سے)ہم افغانستان میں اور خطے میں استحکام اور امن دیکھیں گے‘‘۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے افغان اسپیکر ابراہیمی سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے اور ان کے بقول خطے میں امن اور ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو تقویت دینے کی ضروررت ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کو ایک مشترکہ دشمن سمجھتا ہے اور اس لعنت کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔
انہوں نے اس سلسلے میں افغان امن و مصالحت کے فروغ کی چار ملکی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس سے درست سمت میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
پاکستان ، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکوں کے نمائندوں کا چوتھا مشاروتی اجلاس رواں ہفتے کابل میں ہوا جس میں تمام طالبان اور دیگر دھڑوں سے کہا گیا کہ وہ بات چت کے عمل میں شریک ہوں۔
پاکستان نے بات چیت کے اس عمل کے لیے میزبانی کی پیش کش کی ہے اور ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ مذاکرات مارچ کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں متوقع ہیں۔