افغانستان میں امن و امان کی خراب صورتِ حال، کتابوں اور تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی اور اسکولوں کی مخدوش حالت کے باعث نئے نصاب کے نفاذ اور اس کے مقاصد کا حصول ایک مشکل کام دکھائی دے رہا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی کا شکار افغانستان میں سیاسی اور لسانی تقسیم بہت گہری ہے۔ اس تقسیم کےخاتمے اور ملک میں اتحاد کی فضا قائم کرنے کے لیے افغان حکومت نے حال ہی میں ملک بھر کے اسکولوں میں ایک نیا نصاب متعارف کرایاہے۔
افغان وزارتِ تعلیم کے ترجمان امان اللہ ایمان کا کہا ہے کہ ان کی وزارت کو اس نئے نصاب کی تیاری اور نفاذ کے آغاز میں 10 برس کا عرصہ لگا ہے لیکن ان کےبقول اب بھی راہ میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔
ایمان کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ جنوبی صوبوں میں امن و امان کی خراب صورتِ حال ہے جس کے باعث وہاں 500 اسکول بند پڑے ہیں۔ ان صوبوں کے لگ بھگ تین لاکھ بچے مضافات میں کوئی اسکول نہ ہونے کےباعث تعلیم سے محروم ہیں۔
ان کے بقول افغان وزارتِ تعلیم کا درپیش دوسرا بڑا مسئلہ تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کا ہے۔ ایمان کہتے ہیں کہ ان کی وزارت اسکولوں میں رائج اسلامیات کے نصاب پر بھی نظرِ ثانی کر رہی ہے جسے ماضی میں طالبان حکومت نے تبدیل کردیا تھا۔
ان کےبقول اسلامیات کے نئے نصاب میں طلبہ میں افغانستان کے ساتھ محبت کو پروان چڑھانے پر توجہ دی گئی ہے اور امید ہے کہ نئی نصابی کتب اشاعت کے بعد جلد ہی اسکولوں میں متعارف کرادی جائیں گی۔
ایک اندازے کے مطابق وسائل کی کمی کے باعث نئے نصاب کی 45 لاکھ کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔ جبکہ مزید 50 لاکھ کے قریب نصابی کتب گزشتہ پاکستان میں کھڑے ان کنٹینروں میں پڑی ہیں جو نیٹو رسد لے جانے والے ٹرکوں پر لدے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان بھر میں 30 لاکھ بچوں کو اسکول میسر نہیں جب کہ ملک میں موجود کل 16 ہزار اسکولوں میں سے لگ بھگ سات ہزار مناسب عمارات سے محروم ہیں اور ان میں طلبہ کو خیموں یا کھلے آسمان تلے تعلیم دی جارہی ہے۔
افغانستان میں شعبہ تعلیم کو درپیش ایک بڑی مشکل طالبان شدت پسند ہیں جو خصوصاً ملک کے جنوبی علاقوں میں اسکولوں کو تباہ کرتے اور اسکول جانے والی طالبات کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔
ان حملوں نے افغانوں اور خصوصاً طالبات کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ لیکن افغان خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تنظیم 'ویمن فار چینج' سے منسلک رضاکار آرزو امید کاکہنا ہے کہ ان حالات کے باوجود افغان لڑکیوں کا اسکول جانا انتہائی ضروری ہے۔
ان کے بقول اگر افغان شہریوں خصوصاً خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی لانی ہے تو انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔
دارالحکومت کابل کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم پانے والے طلبہ کی اکثریت بھی ملک کے موجودہ نظامِ تعلیم سے مطمئن نہیں اور اسے فرسودہ اور ناکارہ قرار دیتی ہے۔
'کابل یونیورسٹی' میں زیرِ تعلیم حامد امان کا کہنا ہے کہ افغان اسکولوں میں ایک کلاس میں 70 سے 80 طلبہ ہوتے ہیں اور کوئی بھی استاد اتنے سارے طلبہ کو ٹھیک طور سے نہیں پڑھا سکتا۔
ان کے بقول دیہی علاقوں میں صورتِ حال اور بھی خراب ہے جہاں کے ہائی اسکول سے پڑھ کر نکلنے والے طلبا کی اکثریت پڑھنے لکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی۔
ان حالات میں افغانستان کے نظامِ تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور بالآخر افغان رہنمائوں نے اس ضرورت کا ادراک کرلیا ہے۔
افغان وزارتِ تعلیم کے ترجمان امان اللہ ایمان کا کہا ہے کہ ان کی وزارت کو اس نئے نصاب کی تیاری اور نفاذ کے آغاز میں 10 برس کا عرصہ لگا ہے لیکن ان کےبقول اب بھی راہ میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔
ایمان کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ جنوبی صوبوں میں امن و امان کی خراب صورتِ حال ہے جس کے باعث وہاں 500 اسکول بند پڑے ہیں۔ ان صوبوں کے لگ بھگ تین لاکھ بچے مضافات میں کوئی اسکول نہ ہونے کےباعث تعلیم سے محروم ہیں۔
ان کے بقول افغان وزارتِ تعلیم کا درپیش دوسرا بڑا مسئلہ تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی کا ہے۔ ایمان کہتے ہیں کہ ان کی وزارت اسکولوں میں رائج اسلامیات کے نصاب پر بھی نظرِ ثانی کر رہی ہے جسے ماضی میں طالبان حکومت نے تبدیل کردیا تھا۔
ان کےبقول اسلامیات کے نئے نصاب میں طلبہ میں افغانستان کے ساتھ محبت کو پروان چڑھانے پر توجہ دی گئی ہے اور امید ہے کہ نئی نصابی کتب اشاعت کے بعد جلد ہی اسکولوں میں متعارف کرادی جائیں گی۔
ایک اندازے کے مطابق وسائل کی کمی کے باعث نئے نصاب کی 45 لاکھ کتابیں اشاعت کی منتظر ہیں۔ جبکہ مزید 50 لاکھ کے قریب نصابی کتب گزشتہ پاکستان میں کھڑے ان کنٹینروں میں پڑی ہیں جو نیٹو رسد لے جانے والے ٹرکوں پر لدے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان بھر میں 30 لاکھ بچوں کو اسکول میسر نہیں جب کہ ملک میں موجود کل 16 ہزار اسکولوں میں سے لگ بھگ سات ہزار مناسب عمارات سے محروم ہیں اور ان میں طلبہ کو خیموں یا کھلے آسمان تلے تعلیم دی جارہی ہے۔
افغانستان میں شعبہ تعلیم کو درپیش ایک بڑی مشکل طالبان شدت پسند ہیں جو خصوصاً ملک کے جنوبی علاقوں میں اسکولوں کو تباہ کرتے اور اسکول جانے والی طالبات کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔
ان حملوں نے افغانوں اور خصوصاً طالبات کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ لیکن افغان خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم تنظیم 'ویمن فار چینج' سے منسلک رضاکار آرزو امید کاکہنا ہے کہ ان حالات کے باوجود افغان لڑکیوں کا اسکول جانا انتہائی ضروری ہے۔
ان کے بقول اگر افغان شہریوں خصوصاً خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی لانی ہے تو انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔
دارالحکومت کابل کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم پانے والے طلبہ کی اکثریت بھی ملک کے موجودہ نظامِ تعلیم سے مطمئن نہیں اور اسے فرسودہ اور ناکارہ قرار دیتی ہے۔
'کابل یونیورسٹی' میں زیرِ تعلیم حامد امان کا کہنا ہے کہ افغان اسکولوں میں ایک کلاس میں 70 سے 80 طلبہ ہوتے ہیں اور کوئی بھی استاد اتنے سارے طلبہ کو ٹھیک طور سے نہیں پڑھا سکتا۔
ان کے بقول دیہی علاقوں میں صورتِ حال اور بھی خراب ہے جہاں کے ہائی اسکول سے پڑھ کر نکلنے والے طلبا کی اکثریت پڑھنے لکھنے کے قابل بھی نہیں ہوتی۔
ان حالات میں افغانستان کے نظامِ تعلیم میں اصلاحات کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور بالآخر افغان رہنمائوں نے اس ضرورت کا ادراک کرلیا ہے۔