افغان مصالحتی عمل کی جلد بحالی پر شک و شبہات برقرار

فائل فوٹو

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بات چیت کا یہ عمل اسی صورت میں شروع ہو سکتا ہے اگر ملا منصور کی قیادت میں طالبان کا سب سے بڑا دھڑا اس میں شرکت پر راضی ہوتا ہے۔

افغانستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ پاکستان نے انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بہت جلد شروع ہو سکتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کا دورہ مکمل کرنے والے افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین حسین علیمی بلخی کا اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے انہیں اس امر کی یقین دہانی کروائی ہے کہ یہ مذاکرات ایک ماہ میں شروع ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بات چیت کا یہ عمل شروع ہوتا ہے تو اس سے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

افغان عہدیدار پاکستان پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ طالبان رہنماؤں کو بات چیت کی میز پر لانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کاطالبان جنگجوؤں کی کچھ گروپوں پر محدود اثرورسوخ تو ضرورہے لیکن افغانستان کے اندر طالبان سرگرمیوں پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں طالبان کی عسکری کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور رواں ہفتے کابل میں افغان سکیورٹی فورسز کے دفتر پر ہوئےمہلک حملے میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔

اس حملے کے بعد ایک بار پھر افغان عہدیداروں کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے کہ جن میں کہا گیا کہ یہ حملہ ایسے عناصر نے کیا جنہیں مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔

تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوے کہا تھا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ دشمن ہے اور پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے۔

افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیش نظر مبصرین افغان مصالحتی عمل کی جلد بحالی کے بارے میں زیادہ پرامید دکھائی نہیں دیتے۔

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بات چیت کا یہ عمل اسی صورت میں شروع ہو سکتا ہے اگر ملا منصور کی قیادت میں طالبان کا سب سے بڑا دھڑا اس میں شرکت پر راضی ہوتا ہے۔

اسلام آبادکا موقف رہا ہے کہ وہ افغانوں کی شمولیت اور افغانوں کی قیادت میں ہونے والے مصالحتی عمل کی حمایت اور تعاون جاری رکھے گا۔

گزشتہ جولائی میں بھی پاکستان کی میزبانی میں مری میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے تھے لیکن طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبر اچانک منظر عام پر آنے کے بعد یہ عمل معطل ہو گیا تھا۔