شمالی وزیرستان میں مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں13 ہلاک

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بدھ کے روز مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں کم ازکم 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں ۔

مقامی حکام کے مطابق بغیر ہوا باز کے ایک جاسوس طیارے سے داغے گئے میزائلوں کا ہدف دتہ خیل کے علاقے میں واقع عسکریت پسندوں کا ایک مشتبہ ٹھکانہ تھا ۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد جب مقامی لوگ امدادی کارروائی کرنے کے لیے وہاں جمع ہوئے تو اسی اثناء میں ڈرون سے مزید میزائل داغے گئے۔جس میں کئی افراد شدید زخمی ہوگئے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال مشتبہ امریکی ڈرون کایہ تیسرا حملہ ہے جب کہ گزشتہ سال پاکستان کے قبائلی علاقوں پرتقریباً 50سے زائد حملے کیے گئے۔ان میں ہلاک ہونے والے 400سے زائد افراد میں اکثریت عسکریت پسندوں کی بتائی جاتی ہے۔

افغان سرحد سے منسلک پاکستان کے یہ قبائلی علاقے عسکریت پسندوں کی آماجگاہ سمجھے جاتے ہیں ۔شمالی وزیرستان سے ملحقہ جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج نے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کررکھی ہے۔تاہم امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں بھی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کرے کیوں کہ سرحد پار امریکہ اور اتحادی افواج پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والا حقانی نیٹ ورک اسی علاقے میں موجود ہے۔

جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد گزشتہ چند ماہ میں پاکستان میں دہشت گردی خصوصاً خودکش حملوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ ملک کے مختلف حصوں خصوصاً پشاور میں ہونے والے دھماکوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ مبصرین دہشت گردی کی ان کارروائیوں کو فوجی آپریشن کا ردعمل قرار دیتے ہیں۔

پاکستانی حکام ان ڈرون حملوں کی مذمت کرتے آئے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ ان میں عام لوگوں کی ہلاکتیں عوام میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔