ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ سعید جلیلی کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا شام کی حمایت کرتی ہے۔
واشنگٹن —
ایران کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ شام کے خلاف کی جانےو الی حالیہ "جارحیت" پر اسرائیل کو پچھتانا پڑے گا۔
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ سعید جلیلی نے یہ بیان پیر کو شام کے دارالحکومت دمشق کے دورے کے دوران میں دیا۔ صحافیوں سے گفتگو میں جلیلی ان کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا شام کی حمایت کرتی ہے۔
ایرانی رہنما کا یہ بیان اسرائیل کے وزیرِ دفاع ایہود براک کے اس بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے شام میں گزشتہ ہفتے کیے جانے والے فضائی حملے میں اپنے ملک کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا تھا۔
اتوار کو جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی ایک 'سیکیورٹی کانفرنس' سے خطاب کرتے ہوئے ایہود براک نے کہا تھا کہ شام میں گزشتہ ہفتے کیے جانے والے فضائی حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل شام سے بھاری ہتھیاروں کی لبنان منتقلی روکنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
امریکی اور خطے کے سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے لبنان اور شام کی سرحد کے نزدیک ایک شامی قافلے کو نشانہ بنایا تھا جو مبینہ طورپر لبنانی عسکری تنظیم 'حزب اللہ' کے لیے طیارہ شکن میزائل لے جارہا تھا۔
اسرائیلی حکام نے اس حملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اتوار کو اپنے خطاب میں بھی اسرائیلی وزیرِ دفاع نے حملے کی براہِ راست ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حملہ اس بات کا ثبو ت تھا کہ جب اسرائیل کچھ کہتا ہے تو کر کے دکھاتا ہے۔ ان کے بقول، "ہم کہتے آئے تھے کہ جدید ہتھیاروں کی لبنان منتقلی کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جائے گی"۔
ایہود براک کا کہنا تھا کہ شام میں جو کچھ چند روز پہلے ہوا اور اس کی جو تفصیلات سامنے آچکی ہیں وہ اس پر مزید کچھ نہیں کہیں گے۔
خیال رہے کہ حملے کے بعد سے کسی بھی اسرائیلی رہنما کا اس موضوع پر یہ پہلا بیان تھا۔ حملے سے قبل اسرائیلی حکام کئی بار خبردار کرچکے تھے کہ 'حزب اللہ' کو شام سے زمین سے فضا میں مار کرنےو الے میزائلوں کی فراہمی سے خطے کی صورتِ حال تبدیل ہوجائےگی۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے دعووں کے برعکس شامی حکومت نے کہا تھا کہ اسرائیلی طیاروں نے دارالحکومت دمشق کے نزدیک 'جمرایہ' کے علاقے میں قائم ایک فوجی تحقیقی مرکز کو نشانہ بنایا تھا۔
حملے کے کئی روز بعد اپنا پہلا باضابطہ ردِ عمل دیتے ہوئے اتوار کو شام کے صدر بشار الاسد نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ صدر اسد نے خبردار کیا تھا کہ شامی افواج اپنے ملک کے خلاف ہونے والی کسی بھی جارحیت کا جواب دیں گی۔
حملے کے بعد لبنان میں تعینات شام کے سفیر علی عبدالکریم علی نے کہا تھا کہ ان کا ملک مبینہ اسرائیلی حملے کا "حیران کن" جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے اس بیان کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔
ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ سعید جلیلی نے یہ بیان پیر کو شام کے دارالحکومت دمشق کے دورے کے دوران میں دیا۔ صحافیوں سے گفتگو میں جلیلی ان کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا شام کی حمایت کرتی ہے۔
ایرانی رہنما کا یہ بیان اسرائیل کے وزیرِ دفاع ایہود براک کے اس بیان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے شام میں گزشتہ ہفتے کیے جانے والے فضائی حملے میں اپنے ملک کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا تھا۔
اتوار کو جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی ایک 'سیکیورٹی کانفرنس' سے خطاب کرتے ہوئے ایہود براک نے کہا تھا کہ شام میں گزشتہ ہفتے کیے جانے والے فضائی حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل شام سے بھاری ہتھیاروں کی لبنان منتقلی روکنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
امریکی اور خطے کے سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے لبنان اور شام کی سرحد کے نزدیک ایک شامی قافلے کو نشانہ بنایا تھا جو مبینہ طورپر لبنانی عسکری تنظیم 'حزب اللہ' کے لیے طیارہ شکن میزائل لے جارہا تھا۔
اسرائیلی حکام نے اس حملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اتوار کو اپنے خطاب میں بھی اسرائیلی وزیرِ دفاع نے حملے کی براہِ راست ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حملہ اس بات کا ثبو ت تھا کہ جب اسرائیل کچھ کہتا ہے تو کر کے دکھاتا ہے۔ ان کے بقول، "ہم کہتے آئے تھے کہ جدید ہتھیاروں کی لبنان منتقلی کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جائے گی"۔
ایہود براک کا کہنا تھا کہ شام میں جو کچھ چند روز پہلے ہوا اور اس کی جو تفصیلات سامنے آچکی ہیں وہ اس پر مزید کچھ نہیں کہیں گے۔
خیال رہے کہ حملے کے بعد سے کسی بھی اسرائیلی رہنما کا اس موضوع پر یہ پہلا بیان تھا۔ حملے سے قبل اسرائیلی حکام کئی بار خبردار کرچکے تھے کہ 'حزب اللہ' کو شام سے زمین سے فضا میں مار کرنےو الے میزائلوں کی فراہمی سے خطے کی صورتِ حال تبدیل ہوجائےگی۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے دعووں کے برعکس شامی حکومت نے کہا تھا کہ اسرائیلی طیاروں نے دارالحکومت دمشق کے نزدیک 'جمرایہ' کے علاقے میں قائم ایک فوجی تحقیقی مرکز کو نشانہ بنایا تھا۔
حملے کے کئی روز بعد اپنا پہلا باضابطہ ردِ عمل دیتے ہوئے اتوار کو شام کے صدر بشار الاسد نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ صدر اسد نے خبردار کیا تھا کہ شامی افواج اپنے ملک کے خلاف ہونے والی کسی بھی جارحیت کا جواب دیں گی۔
حملے کے بعد لبنان میں تعینات شام کے سفیر علی عبدالکریم علی نے کہا تھا کہ ان کا ملک مبینہ اسرائیلی حملے کا "حیران کن" جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے اس بیان کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔