”کرغز ازبکوں کو قتل کرکے لاشوں کی بے حرمتی کرتے رہے“

علی رضا کی لاش خصوصی طیارے کے ذریعے چکلالہ ائر بیس لائی گئی

کرغزستان میں جاری نسلی فسادات میں گولی لگنے سے ہلاک ہونے والے پاکستانی علی رضا کو بدھ کے روز سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں ان کے آبائی علاقے شورکوٹ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کی میت ایک روز قبل کرغز شہر اوش سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان لائی گئی۔ اس طیارے میں136دیگر پاکستانی بھی وطن واپس پہنچے۔

”وہ میرا بہت اچھا دوست تھا،ایک دن پہلے ہماری بات ہوئی اور اگلے روز کے لیے ہم نے ملنے کا پروگرام بنایا ، لیکن انھوں نے مار دیا میرے دوست کو ، میں ان وحشیوں کو کبھی معاف نہیں کروں گا“۔ نم آنکھوں اور رندھی آواز میں یہ الفاظ ہیں محمد نعمان ضیاکے جو علی رضا کا دوست ہے۔

نعمان ضیا

وطن واپسی پر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں نعمان نے بتایا کہ اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسی” بربریت اور درندگی“ اپنی آنکھوں سے دیکھی، مقامی لوگ کس طرح ازبکوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے ہیں یہ ایک دلدوز منظر ہے جو انھیں اوش میں دیکھنے کو ملا۔ انھوں نے کہا کہ مرد، عورتیں،بچے، حاملہ عورتیں وہ ”ظالم“ کسی کو بھی نہیں چھوڑتے۔

ہزاروں ازبک باشندوں کی طرح سعیدہ بھی کرغز ستان میں مقیم تھیں اور ایک پاکستانی سے شادی کے بعد اوش میں خوش وخرم زندگی گزار رہی تھیں، وہ کہتی ہیں”ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ قتل وغارت کیوں شروع ہوگئی، کرغز لوگ ازبکوں کے گھروں میں گھس کر بچوں اور بڑوں کو مار رہے ہیں، وہاں مسائل مزید سنگین ہوتے جارہے ہیں“۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کے دیگر افرادتاحال وہیں مقیم ہیں اور وہ ان کی خیریت سے متعلق تشویش میں مبتلا ہیں۔

سعیدہ

سعیدہ کا کہنا تھا کہ وہ عالمی برادری سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ کرغزستان میں پھنسے بے گناہ ازبکوں کی سلامتی کے لیے کوشش کریں۔

ڈاکٹر محمد وسیم نے اوش میں ہونے والے ہنگاموں کا آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا کہ شہر میں ازبکوں کی اکثریت ہے جب کہ گردونواح میں کرغز آباد ی زیادہ ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ یہ لوگ شہر میں آتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ وہاں زندگی بالکل مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کے بقول علی رضا کو ہسپتال پہنچانے کے لیے بھی انھیں ایک کرغز گروہ کو رقم ادا کرنا پڑی تاکہ وہ انھیں محفوظ راستہ دے سکیں۔

گذشتہ دو روز میں پاکستان کی دو خصوصی پروازوں پر 270پاکستانیوں کو اوش سے وطن واپس لایا گیا ہے ۔ ان میں اکثریت طلبا کی ہے ۔ وطن واپس آنے والے افراد نے جہاں حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے وہیں طلبا نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان کے تعلیمی حرج کو پورا کرنے کے لیے بھی حکومت اقدامات کرے۔