چین کی سرحد کے قریب واقع گلگت بلتستان کی حکومت نے دیامر ضلع میں پاکستانی فوج کو علاقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر تعمیر کرنے کے لیے زمین مختص کی ہے جہاں چین پاکستان اقتصادی راہداری کی حفاظت پر مامور فورس کے معاملات کی نگرانی کی جائے گی۔
گزشتہ سال اپریل میں چین کے صدر شی جنپنگ کی پاکستان آمد کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان وسیع البنیاد اقتصادی راہداری منصوبے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس موقع پر پاکستان کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ راہداری کی حفاظت کے لیے دس ہزار جوانوں پر مشتمل ایک فورس تشکیل دی جائے گی۔
اس معاہدے کے تحت چین کے صوبے سنکیانگ سے پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر تک سڑکوں، ریلوے لائنوں اور تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کا ایک جال بچھایا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ضلع دیامر کے ڈپٹی کمشنر عثمان احمد نے بتایا کہ دیامر میں پاک فوج کو زمین کی منتقلی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
’’چین پاکستان راہداری خنجراب ٹوپ سے شروع ہو گی اور گوادر تک جائے گی۔ اس کی حفاظت کے لیے حکومت پاکستان ایک پوری ڈویژن بنائی ہے اور اس کے لیے مختلف جگہوں پر قراقرم ہائے وے کے ساتھ ساتھ زمینیں دی گئی ہیں تاکہ اپنے ہیڈ کوارٹرز بنائیں تاکہ قراقرم ہائی وے کی صحیح طرح حفاظت کی جا سکے۔‘‘
یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں قراقرم ہائے وے پاکستان کو چین سے ملاتی ہے۔ دشوارگزار پہاڑوں میں تعمیر کی گئی اس ہائی وے کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی جاتی ہے۔
عثمان احمد نے بتایا کہ اس وقت قراقرم ہائی وے کی حفاظت 250 جوانوں پر مشتمل قراقرم ٹاسک فورس کر رہی ہے۔
تاہم اب چین 46 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری سے پاکستان میں اقتصادی راہداری تعمیر کر رہا ہے جس کے ذریعے چین کے مغربی صوبوں سے تجارتی سامان پاکستان کی گوادر بندرگاہ تک پہنچایا جائے گا جہاں سے اسے بحری جہازوں کے ذریعے اپنی منزل کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔
اسی طرح چین اپنے مغربی صوبوں کے لیے بیرون ملک سے ایندھن اور دیگر اشیا منگوانے کے لیے پاکستان سے گزرنے والی راہداری استعمال کرے گا۔
دیامر کے ڈپٹی کمشنر عثمان احمد نے کہا ابھی یہ نہیں معلوم کہ دیامر میں کتنے فوجی تعینات کیے جائیں گے اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے بات چیت جاری ہے۔
توقع ہے اقتصادی راہداری کی حفاظت پر مامور فورس کے لیے ملک کے دیگر حصوں میں بھی نئی تنصیبات تعمیر کی جائیں گی۔