لیبیا میں حریف ملیشیا فورسز نے ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمتی مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔
اس خدشے کے پیش نظر کہ سیاستدان اس ہفتے اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی ہونے والی بات چیت میں امن معاہدے پر اتفاق نہیں کر سکیں گے، انہوں نے سیاستدانوں کو ان مذاکرات میں شامل نہیں کیا۔
اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والی بات چیت کا مقصد لیبیا کے دو پارلیمان کے درمیان ایک سال سے جاری پُرتشدد رسہ کشی کا حل تلاش کرنا ہے۔
پیر کو مراکش کے دارالحکومت رباط میں مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے بعد فریقین نے تسلیم کیا ہے کہ امن معاہدے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔
’جنرل نیشنل کانگریس‘ کہلانے والی طرابلس میں قائم پارلیمان اور طبرق میں قائم ’ایوان نمائندگان‘ کہلانے والے بین الاقوامی حمایت یافتہ پارلیمان کے مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ طرفین ایک قومی حکومت کے قیام پر اتفاق کرتی ہیں مگر اس کے علاوہ ان میں کسی بات پر اتفاق نہیں، نا ہی کسی کو معلوم ہے کہ دو حریف قانون ساز اداروں کا کیا کیا جائے جنہوں نے اپنی الگ حکومتیں قائم کر رکھی ہیں۔
ایوان نمائندگان کے اراکین نے امن مذاکرات کے سہولت کاروں کو بتایا ہے کہ معاہدے تک پہنچنا ممکن ہے مگر ساتھ ہی خبردار کیا ہے کہ دونوں جانب سخت گیر مؤقف رکھنے والے افراد موجود ہیں جو کسی بھی سمجھوتے کے مخالف ہیں۔
ہفتے کو اقوامِ متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے امن مذاکرات کے خلاف ایک مسلح ملیشیا نے مغربی شہر زاویہ میں ایک ریڈیو اسٹیشن پر دھاوا بول دیا جسے قابو کرنے کے لیے جنرل نیشنل کانگریس کے حکام کو مشکل پیش آئی۔
جنرل نیشنل کانگریس کے حامی کئی دوسرے شہروں کی طرح زاویہ بھی دو دھڑوں میں منقسم ہے، ایک وہ جو سیاسی حل چاہتے ہیں اور دوسرے سخت گیر مؤقف رکھنے والے افراد جو امن کے عمل کو غداری سمجھتے ہیں اور جن کا خیال ہے کہ اس میں طبرق میں ان کے مخالفین کو ضرورت سے زیادہ رعایتیں دے دی جائیں گی۔
مگر مصراتہ اور زنتان شہروں سے تعلق رکھنے والی دو طاقتور ملیشیا امن مذاکرات کی ناکامی کے خدشے کے تحت ایک دوسرے سے در پردہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔
لیبیا کے دارالحکومت سے تین گھنٹے کی زمینی مسافت پر واقع مصراتہ کی ملیشیا کے بریگیڈ کمانڈر عبدالمصطفیٰ فورتیہ کا کہنا ہے کہ ملیشیا امن کے عمل کی حمایت کرتی ہیں۔ مگر ان کا خدشہ ہے کہ طرابلس اور طبرق میں سخت گیر مؤقف رکھنے والے افراد اس کی مخالفت کریں گے۔
تاہم طرابلس میں جنرل نیشنل کانگریس کے اراکین کا کہنا ہے کہ وہ ان مذاکرات کے بارے میں محتاط طور پر پُرامید ہیں۔ جنرل نیشنل گانگریس کی چار رکنی مذاکراتی ٹیم کے اراکین ابراہیم سہد اور محمد معزب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ امن معاہدے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں اور خبردار کیا کہ اگر مذاکرات کی نگرانی کرنے والے اقوامِ متحدہ کے سفیر برنارڈینو لیون نے کسی لچک کا مظاہرہ نہ کیا تو اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکتا۔
گزشتہ ہفتے لیون نے لیبیا کے رہنماؤں کو خبردار کیا تھا کہ ملک کو ’حقیقت کے ایک لمحے‘ کا سامنا ہے اور وہ ایک ناکام ریاست بننے کی نہج پر ہے۔
انہوں نے حریف رہنماؤں کو جلد متحد ہو کر داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے پر زور دیا۔ داعش کے جنگجوؤں، جن میں سے زیادہ تر ہمسایہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، نے کرنل معمر قذافی کے آبائی ساحلی شہر پر قبضہ کر لیا ہے، جنہیں چار سال قبل معزول کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے داعش نے ام ولید قصبے کے قریب انسانی اسمگلروں کے قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا اور اریٹریا کے 86 مسیحیوں کو پکڑ لیا۔
خدشہ ہے کہ شدت پسند ان افراد کو قتل کر دیں گے۔ اس سے پہلے بھی داعش لیبیا میں بہت سے غیر ملکیوں کو قتل کر چکی ہے۔
داعش کا لیبیا میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ مصراتہ اور زنتان ملیشیا کے درمیان مذاکرات اور عمومی طور پر امن مذاکرات کا بنیادی محرک ہے۔