اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے مردم شماری سے متعلق معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ اجلاس میں زیرغور لانے کی منظوری دے دی ہے
اسلام آباد —
پاکستان کے الیکشن کمیشن نے حال ہی میں وزیراعظم نوازشریف کو ایک سمری بجھوائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 1998ء کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی اس لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر ملک میں مردم شماری کرانے کے فیصلے منظوری دی جائے۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے مردم شماری سے متعلق معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ اجلاس میں زیرغور لانے کی منظوری دے دی ہے تاہم سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی کی موجودگی ضروری ہوتی ہے جہاں وفاق کے متفقہ فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن آئندہ اجلاس کے انعقاد کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی حال میں وزیراعظم نواز شریف کو ایک خط لکھا تھا جس میں اُن سے ملک میں مردم شماری کرانے کے لیے کہا گیا۔
آئین کے تحت ہر دس سال بعد مردم شماری کروانا لازمی ہوتا ہے۔ 2011ء میں اُس وقت کی حکومت نے مردم شماری کے پہلے مرحلے کے سلسلے میں ملک بھر بشمول وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں گھروں کا شمار یعنی ’’خانہ شماری‘‘ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں ملک کے بعض علاقوں میں سیلاب اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ آگے نا بڑھ سکا۔
حکام کے مطابق ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قومی وسائل پر دباؤ بڑھا ہے اور پاکستان توانائی اور پانی کے بحران سے دوچار ہے۔
اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے اور مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے مردم شماری ضروری ہے کیونکہ اسی بنا پر آبادی اور وسائل کا تعین کیا جاتا ہے۔ مزید برآں انتخابات کے لیے ووٹر فہرستوں اور حلقہ بندیوں کے لیے بھی یہ اقدام نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں 1998ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 13کروڑ 23 لاکھ تھی۔ تاہم سرکاری اور غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان کی آبادی بڑھ کر تقریباً اٹھارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے مردم شماری سے متعلق معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ اجلاس میں زیرغور لانے کی منظوری دے دی ہے تاہم سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی کی موجودگی ضروری ہوتی ہے جہاں وفاق کے متفقہ فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن آئندہ اجلاس کے انعقاد کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی حال میں وزیراعظم نواز شریف کو ایک خط لکھا تھا جس میں اُن سے ملک میں مردم شماری کرانے کے لیے کہا گیا۔
آئین کے تحت ہر دس سال بعد مردم شماری کروانا لازمی ہوتا ہے۔ 2011ء میں اُس وقت کی حکومت نے مردم شماری کے پہلے مرحلے کے سلسلے میں ملک بھر بشمول وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں گھروں کا شمار یعنی ’’خانہ شماری‘‘ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں ملک کے بعض علاقوں میں سیلاب اور دیگر وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ آگے نا بڑھ سکا۔
حکام کے مطابق ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قومی وسائل پر دباؤ بڑھا ہے اور پاکستان توانائی اور پانی کے بحران سے دوچار ہے۔
اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے اور مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے مردم شماری ضروری ہے کیونکہ اسی بنا پر آبادی اور وسائل کا تعین کیا جاتا ہے۔ مزید برآں انتخابات کے لیے ووٹر فہرستوں اور حلقہ بندیوں کے لیے بھی یہ اقدام نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں 1998ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 13کروڑ 23 لاکھ تھی۔ تاہم سرکاری اور غیر سرکاری اندازوں کے مطابق پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان کی آبادی بڑھ کر تقریباً اٹھارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔