توانائی اور بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے اسلام آباد میں ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں وفاق اور چاروں صوبوں کے اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ ماہرین نے بھی شرکت کی ۔تاہم اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں حکومت نے فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے اور صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے تفصیلات وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جمعرات کو میڈیا کے سامنے پیش کریں گے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک کو اس وقت بجلی کی پیداوار اور کھپت میں پانچ ہزار میگاواٹ سے زائد کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کے لیے حکومت روزانہ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس پالیسی پر حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے معمول بن چکے ہیں۔
اس ہفتے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں شامل مشتعل افراد نے نجی اور سرکاری املاک کو نظر آتش کرنے کی کوشش بھی کی اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا۔
اسی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر اسلام آباد میں دو روزہ توانائی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی شرکت کی۔
بدھ کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اجلاس میں پیش کی جانے والی تجاویز کے بارے میں کہا کہ سرکاری دفاتر میں ہفتہ وار دو چھٹیوں اور تجارتی مراکز کی بھی ہفتہ وار تعطیل کے علاوہ شادی ہالوں میں غیر ضروری روشنی بشمول برقی قمقموں کے استعمال پر پابندی جیسی سفارشات کے ساتھ ساتھ اس بات پر زور دیا گیا کہ ملک میں دستیاب گیس اور دیگر خام مال سے بجلی کی پیداوار میں فوری طور پر اضافہ کیا جائے۔
تاجر برادری اور کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ بجلی کی طویل بندش سے صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کے باعث غیر ملکوں سے ملنے والے آرڈرز بھی منسوخ کیے گئے ہیں جب کہ یہ صورتحال ان کے بقول بے روزگاری میں تیزی سے اضافے کی وجہ بھی بن رہی ہے۔