”پروفیسر محمد ایوب قادری ایک محقق آدمی ہیں۔ شجرہ نسب مانگ رہے تھے۔ ہمارے ہاں کہاں سے آتا؟ ہم نے کہا کہ بزرگوں میں ہمیں اپنے والد کا نام یاد ہے یا ایک اور مورثِ اعلیٰ کا کہ اپنے زمانے کے مشہور پیغمبر تھے، بولے کون؟ ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کا نام بتایا تو عقیدت سے ادھ موئے ہوگئے۔“
یہ الفاظ شیر محمد خان کے ہیں جنہیں دنیائے ادب میں ابن انشاء کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اپنی شاعری اور نثر میں یکسر مختلف اسلوب رکھنے والے شاعر، ادیب ابن انشا گیارہ جنوری 1978ء کو اس دنیا سے کوچ کرگئے۔
15جون 1927ء کو غیر منقسم ہندوستان کے علاقے جالندھر میں پیدا ہوئے۔1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم، اے کیا اور بعد ازاں ریڈیو پاکستان اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے علاوہ کئی اداروں میں فرائض انجام دیتے رہے۔ یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ملکوں کا دورہ کیا جن کا احوال جس دلکش انداز میں انھوں نے اپنے سفر ناموں میں تحریر کیا ہے وہ بھی بلاشبہ ادب میں ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔
’ابن بطوطہ کے تعاقب میں، آورہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، چلتے ہو تو چین کو چلیے‘ ان کے سفر نامے ہیں۔ ان کے نثر پاروں میں جہاں چلبلا پن اور بذلہ سنجی غالب نظر آتی ہے وہیں ان کی شاعری میں سنجیدگی اوربجوگ جھلکتاہے۔
ان کی غزل’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘ آج بھی مقبول عام ہے۔اس بستی کے ایک کوچے میں،چاند نگر،دل وحشی ان کی شاعری کی کتب ہیں جب کہ طنزو مزاح پر مبنی تصانیف میں،خمار گندم، اردو کی آخری کتاب شامل ہیں۔ ان کتب کے اب تک درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
اردو کے معروف شاعر انور مسعود کا ابن انشا کی تحریروں کے حوالے سے کہنا تھا کہ جو شفتگی اور برجستگی ان کی نثر میں ملتی ہے دراصل اس کے موضوعات بہت سنجیدہ ہیں اور اس کے پیچھے بھی ’آنسوؤں کی لڑی‘ ہے۔انشا نے بلا شبہ اردو ادب میں طنزومزاح کے شعبے کو بہت ثروت مند کیا ہے۔
انور مسعود کے بقول ایسے اہل قلم اور شاعراہل بصیرت ہوا کرتے ہیں، اپنے وقت میں فردا کا اس طرح تذکرہ کرتے ہیں کہ ان کا کام ہر دور میں تازہ اور اس کی ترجمانی کرتا نظرآتا ہے۔
ابن انشا کی تصنیف ’اردو کی آخری کتاب‘ میں لکھے گئے مضمون ’ابتدائی حساب‘ میں انھوں نے تین دہائی قبل جو تحریر کیاہے وہ اب بھی حسب حال معلوم ہوتا ہے۔ اس مضمون سے ایک اقتباس۔
”حساب کے چار بڑے قاعدے ہیں: جمع،تفریق،ضرب، تقسیم۔
جمع کے قاعدے پر عمل کرنا آسان نہیں، خصوصاً مہنگائی کے دنوں میں۔ سب کچھ خرچ ہوجاتا ہے، کچھ جمع نہیں ہو پاتا۔ جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے۔ عام لوگوں کے لیے ایک جمع ایک برابر ڈیڑھ کے ، کیونکہ باقی تو انکم ٹیکس والے لے جاتے ہیں۔ تجارت کے قاعدے سے جمع کریں تو ایک جمع ایک مطلب ہے گیارہ۔ رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ قاعدہ وہی اچھا ہے جس میں حاصل جمع زیادہ سے زیادہ آئے بشرطیکہ پولیس مانع نہ ہو۔ ایک قاعدہ زبانی جمع خرچ کا ہوتا ہے۔ یہ ملک کے مسائل حل کرنے کے کام آتا ہے اور آزمودہ ہے۔“
اسی طرح تفریق کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ”میں سندھی ہوں ، تو سندھی نہیں ہے، میں بنگالی ہوں تو بنگالی نہیں ہے، میں مسلمان ہوں تو مسلمان نہیں ہے۔ اس کو تفریق کرنا کہتے ہیں۔“ انتہا اور اعتدال پسندوں کی تفریق میں گھرا آج کا معاشرہ بھی ایسی ہی تصویر پیش کررہا ہے۔
تقسیم کا قاعدہ ابن انشا نے کچھ اس طرح تحریر کیا ہے۔ ”تقسیم کا مطلب ہے بانٹنا۔ اندھوں کا آپس میں ریوڑیاں بانٹنا۔بندرکا بلیوں میں روٹی بانٹنا۔ چوروں کا آپس میں مال بانٹنا۔ اہلکاروں کا آپس میں رشوت بانٹنا۔ تقسیم کا طریقہ کچھ مشکل نہیں ہے۔ حقوق اپنے پاس رکھیے اور فرائض دوسروں میں بانٹ دیجئے۔ آپ کو مکمل پہاڑا مع گُر یاد ہو تو کسی کو تقسیم کی کانوں کان خبر نہیں ہوسکتی۔ آخر کو 12کروڑ لوگوں کی دولت کو 22خاندانوں نے آپس میں تقسیم کیا ہے ۔کسی کو پتا چلا؟“۔
ابن انشا کی ایک غزل کے دو شعر حاضر خدمت جو آج کی تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
میلوں ٹھیلوں، باجوں گاجوں باراتوں کی دھومیں تھیں
آج کوئی دیکھے تو سمجھے، یہ توسدا بیاباں تھا۔
چاروں جانب، ٹھنڈے چولہے، اجڑے اجڑے آنگن ہیں
ورنہ ہر گھر میں تھے کمرے، ہر کمرے میں ساماں تھا۔