پاکستان میں حکومت نے آئندہ سال مارچ سے مردم شماری اور خانہ شماری کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ وزیراعظم کی سربراہی میں منعقدہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کے بعد بدھ کی شب جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ مردم شماری کا یہ عمل فوج کی نگرانی میں کیا جائے گا۔
پاکستان کے آئین کی رو سے ملک میں مردم شماری کا عمل ہر دس سال کے بعد ضروری ہے، تاہم پاکستان میں آخری مردم شماری 17 سال قبل 1998ء میں ہوئی تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت کے دوران خانہ شماری کی گئی تاہم مردم شماری نا ہو سکی جس کی وجہ مبصرین کے بقول سلامتی کی صورت حال تھی۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13 کروڑ اسی لاکھ کے قریب تھی۔ تاہم حال ہی میں جاری ہونے والے ملک کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباً 18 کروڑ 80 لاکھ ہے۔
پائیدار ترقی اور منصوبہ سازی کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے سربراہ ڈاکٹر عابد سلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک میں قابل عمل منصوبہ بندی کے لیے مردم شماری ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
’’کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد اعداد و شمار کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جب یہ ہی نہیں معلوم کہ ملک کی آبادی کتنی ہے، کس صوبے کی کتنی آبادی ہے کس ضلع میں کتنی آبادی ہے، لوگوں کی تعلیم اور ان کا پیشہ کیا ہے ان کی اوسط عمریں کیا ہیں یہ سب کچھ مردم شماری کی بنیاد پر ہوتا ہے جو اصولی طور پر ہر دس سال بعد ہوتا ہے تاہم 1998ء کے بعد (پاکستان میں) نہیں ہوا۔‘‘
انھوں نے کہا کہ مردم شماری اور خانہ شماری میں صرف تعداد ہی کو نہیں گنا جاتا بلکہ اس میں آبادی کے علاوہ گھروں کی تفصیل فراہم کی جاتی ہے جو ملک میں ترقی اور منصوبہ بندی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
"بنیادی طور پر صرف تعداد ہی نہیں گنی جاتی بلکہ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ان (لوگوں ) کی عمر کیا ہے ان کی تعلیم کیا ۔۔۔۔کتنے اسپتال، کتنے دفاتر، کنتے گھر ہیں ان میں کتنے افراد رہتے ہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 1998ء کے بعد مردم شماری نا ہونے کی وجہ سے ملک میں منصوبہ بندی آبادی کے ایک محتاط تخمینے کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے ان کے بقول ہمارے ہاں منصوبہ بندی بنیادی حقائق کے مطابق نہیں ہوتی۔
تاہم ڈاکٹر عابد سلہری نے آئندہ سال ملک میں مردم شماری اور خانہ شماری کروانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل کی تکمیل کے بعد یقینی طور پر منصوبہ بندی حقیقت کے قریب ہو جائے گی۔