پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نعیم الحق چل بسے

فائل

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ نعیم الحق کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور کافی عرصے سے علیل تھے۔

چند روز قبل وہ طبیعت بہتر ہونے پر وہ اسلام آباد سے کراچی منتقل ہوئے اور آغا خان اسپتال میں زیر علاج تھے۔

ان کی وفات کی تصدیق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کی۔ انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کینسر کے خلاف بہادری سے لڑنے والے، ہمارے دوست، ساتھی اور ہمارے بڑے نعیم الحق انتقال کرگئے۔ انہیں ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نعیم الحق کو جوار رحمت میں جگہ دے۔

تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کے مطابق، مرحوم کی نماز جنازہ بروز اتوار بعد نماز عصر، مسجد عائشہ، خیابان اتحاد میں ادا کی جائے گی۔

نعیم الحق کون تھے؟

نعیم الحق 11 جولائی 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے، جامعہ کراچی سے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز اور ایس ایم لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔

پیشے کے لحاظ سے بینکر، نعیم الحق نیویارک کے یو این پلازہ میں نیشنل بینک کی شاخ قائم کرنے والی ٹیم کا حصہ بھی رہے، اور 1980ء میں بطور مرچنٹ بینکر لندن میں رہائش اختیار کر لی۔ بعد میں وہ پاکستانی نجی ائیرلائن ایروایشیا کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر اور میٹروپولیٹن اسٹیل کے چیئرمین بھی رہے۔

80 کی دہائی میں لندن قیام کے دوران ان کی عمران خان سے ملاقات ہوئی جو گہری دوستی میں بدل گئی۔ یہ دوستی کئی سالوں تک قائم رہی۔ سال 1984 میں انہوں نے ایئرمارشل اصغرخان کی تحریک استقلال جوائن کی اور کراچی آگئے۔ 1988 میں تحریک استقلال کے ٹکٹ پر اورنگی سے الیکشن بھی لڑا۔ لیکن ناکام رہے۔

1996 میں عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد انہوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ 2008ء میں کینسر کے باعث اہلیہ کے انتقال کے بعد نعیم الحق نے توجہ تحریک انصاف کی جانب مرکوز کر دی۔

2012ء میں نعیم الحق تحریک انصاف چیئرمین کے چیف آف سٹاف بن کر اسلام آباد منتقل ہو گئے۔ پارٹی کی کور کمیٹی کا حصہ اور انفارمیشن سیکریٹری بھی رہے۔

پارٹی کے اندر عمران خان کے قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے انہیں اہم معاملات میں عمران خان کا دست راست سمجھا جاتا تھا، پارٹی کے بعض فیصلوں میں ان کا اثر و رسوخ تو تھا ہی لیکن عمران خان کی ذاتی زندگی میں بھی ان کا عمل دخل رہا اور ان کے ریحام خان اور بعد میں بشریٰ بی بی کے ساتھ نکاح کے بھی چند ایک گواہ تھے جن میں نعیم الحق بھی شامل تھے۔

نعیم الحق کی عمران سے ذاتی دوستی آخری دنوں تک قائم رہی اور ان کی شدید علالت کے دوران گذشتہ دو ہفتوں میں تین مرتبہ وزیراعظم عمران خان ان کے گھر پہنچے اور کافی دیر تک ان کے ساتھ بیٹھے رہے۔ آخری مرتبہ وزیراعظم حالیہ دورہ کراچی میں ان کے گھر گئے تھے اور ان کی عیادت کی تھی۔

جنوری 2018ء میں نعیم الحق کو خون کے سرطان کا مرض تشخیص کیا گیا جس کے علاج کےدوران ہی وہ عام انتخابات کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہے اور چند قریبی افراد کے علاوہ کسی کو پتا بھی نہ چلنے دیا کہ وہ کسی قدر خطرناک مرض سے لڑ رہے ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد نعیم الحق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور مقرر ہوئے۔

صحافیوں کے دوست نعیم الحق

نعیم الحق پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات تھے اور اس وجہ سے ان کے ساتھ پہلے کراچی اور بعد میں اسلام آباد کی صحافیوں کی دوستی رہی، سال 2014 میں دھرنا کے وقت صحافیوں کے ساتھ ان کی دوستی میں اضافہ ہوا اور وہ روزانہ کی بنیاد پر مختلف ٹی وی شوز میں آیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ دھرنا کے دوران روزانہ کنٹینر میں عمران خان کے انٹرویوز کرنے والوں کو نعیم الحق سے ہی رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ لیکن نعیم الحق خندہ پیشانی سے سب کے ساتھ ملا کرتے تھے اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ وزیراعظم کے معاون خصوصی مقرر ہوئے۔ لیکن خرابی صحت کی بنا پر وہ اس اپنے منصب پر زیادہ فعال ہو کر کام نہ کر سکے۔

نعیم الحق ہر فورم پر عمران خان کا تحفظ کرتے تھے اور ایک پروگرام کے دوران انہوں نے مخالف جماعت کے ایک سیاست دان کو تھپڑ بھی مار دیا تھا۔ ان کی عمران سے چالیس سال سے زائد کی رفاقت آخری وقت تک قائم رہی اور وہ تحریک انصاف اور عمران خان کے لیے لڑتے رہے۔