سزائے موت کے قیدی کی ’ذہنی صحت‘ جاننے کے لیے طبی بورڈ کی تشکیل کا فیصلہ

(فائل)

پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ’ذہنی مرض میں مبتلا‘ سزائے موت پانے والے مجرم امداد علی کی بیماری کا جائزہ لینے کے لیے ایک طبی بورڈ تشکیل دینے کی درخواست منظور کر لی ہے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے پیر کو طبی بورڈ تشکیل دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے صوبہ پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل کو 16 نومبر تک عدالت کو ذہنی امراض کے پانچ ماہرین کے نام فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ طبی بورڈ تشکیل دیا جا سکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ذیلی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران امداد علی نے جج کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب درست دیئے تھے اور اس بات کے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے امداد علی کی ذہنی صحت ٹھیک نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے کی ذیلی عدالت میں دوبارہ سماعت نہیں ہو سکتی اور سپریم کورٹ پہلے ہی اس بارے میں اپنا فیصلہ دے چکی ہے تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ پھانسی پر عمل درآمد کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے قبل ازیں امداد علی کی سزائے موت پر عمل درآمد روکتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے 20 اکتوبر کے فیصلے کی نظر ثانی کرنے کی درخواست کو منظور کر لیا تھا۔

امداد علی کو 2002ء میں وہاڑی کی ایک ذیلی عدالت نے ایک شخص کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی جسے بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔

سپریم کورٹ میں امداد علی کی طرف سے دائر کی جانے والی ایک درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ امداد علی شیزوفرینیا کے مرض کا شکار ہے اور اس بنا پر اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کو روکا جائے۔

امداد علی کے وکلاء کا موقف ہے کہ ایک ایسا قیدی جس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے اس کو پھانسی دینا نا صرف بین الاقوامی بلکہ ملکی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔

تاہم گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیزوفرینیا مستقل ذہنی بیماری نہیں اور اس بنا پر سزا ختم نہیں کی جا سکتی۔

عدالتی فیصلے کے بعد مجرم کے ڈیٹھ وارنٹ جاری کر دیے گئے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ اسے دو نومبر کو تختہ دار پر لٹکایا جا سکتا ہے۔

لیکن قیدیوں کی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں نظرثانی ایک درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ اسے فوری طور پر سنا جائے۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے امداد علی کی پھانسی پر عمل درآمد روکتے ہوئے سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی تھی۔

دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر مہلک دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد پر چھ سال سے عائد پابندی ختم کرتے ہوئے سزائے موت پانے والے مجرموں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا اور اب تک چار سو سے زائد مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان حکومت سے سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا مطالبہ کرتی آ رہی ہیں تاہم حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ یہ سزائیں عدالتوں میں قانون کے تحت دی جاتی ہیں جہاں ملزموں کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔