پنجابی لوک داستان ہیر رانجھا یوں تو دوسرے کئی شعراء نے بھی لکھی ہے لیکن وارث شاہ کی تصنیف کردہ ہیر کے حصے میں آنے والی شہرت اور پذیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی ہیر رانجھا کا ذکر آتے ہی لوگوں کے ذہن میں ہیر وارث شاہ کا نام ہی آتا ہے۔
شیخوپورہ کے قریب جنڈیالہ شیر خان میں وارث شاہ کے 212عرس کی تقریبات ہوئیں اس عرس کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہاں ہیر وارث کو اس کے مخصوص انداز میں گانے کا مقابلہ بھی ہوتا ہے۔
وارث شاہ 1722ء میں جنڈیالہ شیر خان میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری میں ہی ان کے والدین کا انتقال ہوگیا اور پھران کی پرورش کی ذمہ داری ان کے بڑے بھائیوں اور بھابھیوں نے سنبھالی۔ اپنی تصنیف میں وارث شاہ اپنے ساتھ اپنی بھابھیوں کے معاندانہ سلوک کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔
وارث شاہ خود کو قصور کے ایک بزرگ پیر مخدوم کا پیروکار کہتے تھے اور ان سے اکتساب فیض کرتے رہے۔ انھوں نے کچھ عرصہ پاکپتن کے نزدیک ایک مسجد میں بھی گزاراجو اب مسجد وارث شاہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
ہیر رانجھے کی لوک داستان کو تحریر کرتے ہوئے وارث شاہ نے جو تشبیہات ،استعارے،محاورے اور تلمیہات استعمال کیے ہیں وہ صوفی اور لوک شعراء کے ہاں کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
معروف ادیب اور اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر نشین فخر زمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ہیر وارث کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وارث شاہ کی یہ تصنیف ایک طرح سے پنجاب کی ”پکچر گیلری “ ہے جس میں اس دور کی ثقافت،ورثے اور روایات کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی حالات کی منظر کشی نظر آتی ہے۔
ان کے بقول ہیر کی شکل میں انھوں نے یہ بات اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ عورت فرسودہ روایات سے آزادی کی خواہاں ہے اور رانجھے کا کردار اپنے اندر ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا عنصر لیے ہوئے ہے۔
فخر زمان کہتے ہیں کہ اُس وقت پنجاب کے سیاسی حالات اور ہر طرف پھیلی فسطائیت کے کرب کو اپنے کلام میں وارث شاہ نے بہت خوبصورت اور ملفوف انداز میں پیش کیا ہے اور ان کے بقول ایسی بڑی تصانیف اپنے دور اور عہد تک محدود رہنے کی بجائے ایک آفاقی پیغام بن کر ہر دور اور ہرجگہ تک پہنچتی ہیں۔
لوک داستانیں یوں تو سینہ بہ سینہ چلتی ہیں ،شاعر اسے اپنے انداز میں تحریر کرتے ہیں،گائیک انھیں اپنا آہنگ دیتے ہیں۔ ہیر وارث زمانے گزرنے کے بعد بھی اتنی ہی مقبول ہے کہ آج بھی اس پر فلمیں اور ڈرامے تخلیق ہورہے ہیں اور وارث شاہ ”عشق کا وارث“ کہلاتے ہیں۔
وارث شاہ کی یہ تصنیف نہ صرف دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کی جاچکی ہے بلکہ بہت سی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ وارث شاہ کا انتقال 1798ء میں ہوا۔