پاکستان جمعرات کو سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ کے لیے ابوظہبی کے میدان میں اتر رہا ہے لیکن اس مرتبہ ایک عرصے تک قومی ٹیسٹ ٹیم کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جانے والے دو بلے باز مصباح الحق اور یونس خان اس میں شامل نہیں ہوں گے۔
ان دونوں تجربہ کار بلے بازوں نے رواں سال ہی بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہا تھا۔
یونس خان ٹیسٹ میچوں میں انفرادی طور پر 10 ہزار رنز بنانے والے واحد اور پہلے پاکستانی بلے باز ہیں جب کہ مصباح الحق دھیمے لیکن مستقبل مزاج کے ساتھ قومی ٹیم کو پہلی مرتبہ عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں سرِفہرست لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
کرکٹ کے معروف مبصر احتشام الحق وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ بلاشبہ ان دونوں مایہ ناز کھلاڑیوں کی کمی تو پاکستانی ٹیم میں محسوس ہو گی۔
"مصباح الحق اور یونس خان تیکنیکی اعتبار سے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ دونوں کے کریڈٹ پر بے تحاشا رنز ہیں۔ ان کا خلا تو فی الوقت پر کرنا مشکل ہے۔۔۔ پاکستانی ٹیم کا جو ویک لنک ہے وہ اس کا اوپننگ کے علاوہ مڈل آرڈر بھی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ مڈل آڈر میں مصباح اور یونس کی جگہ کن کھلاڑیوں کو ٹیم میں ڈالا جاتا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اسکواڈ میں عثمان صلاح الدین شامل کیے گئے ہیں جب کہ حارث سہیل بھی اس کا حصہ ہیں۔ لیکن ان کے بقول عثمان کو اگر ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ ان کے کیریئر کا پہلا ٹیسٹ میچ ہو گا جب کہ حارث نے گزشتہ تین برسوں سے کرکٹ نہیں کھیلی ہے۔
احتشام الحق کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں کپتان سرفراز احمد کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انھیں کس نمبر پر بیٹنگ کرنی ہے اور انھیں اپنے بیٹنگ آرڈر کو آگے لانا ہوگا۔
سری لنکا کی جس ٹیسٹ ٹیم سے پاکستان کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے، احتشام الحق کے نزدیک اگر قومی ٹیم نے موثر حکمت عملی اپنا کر کھیل پیش کیا تو وہ حریف پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
"ان (سری لنکن ٹیم) کا حوصلہ بہت پست دیکھ رہا ہوں کیونکہ بھارت نے انھیں شکست فاش دی۔۔۔ موجودہ سری لنکن ٹیم کے خلاف پاکستان کی حکمت عملی بھی جارحانہ ہونی چاہیے اور کوشش یہ کرنی چاہیے کہ بڑے مارجن سے سیریز جیتی جائے۔ ان کا جو کلیدی آل راؤنڈر ہے، انجیلو میتھیوز وہ بھی ان فٹ ہے تو ان تمام چیزوں کا فائدہ پاکستانی ٹیم کو اٹھانا چاہیے۔"
سری لنکا کے خلاف پاکستان کی میزبانی میں دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز متحدہ عرب امارات میں ہو رہی ہے اور قومی ٹیم کے کوچ مکی آرتھر یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ سینئر کھلاڑیوں کے چلے جانے کے بعد پاکستانی ٹیم نئے دور میں نئے چیلنجز کے ساتھ داخل ہو رہی ہے۔