رسائی کے لنکس

بیلسٹک میزائل پروگرام کے 'سپلائرز' پر امریکی پابندیاں؛ پاکستان پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟


  • پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے پرزہ جات فراہم کرنے والی چینی اور بیلاروس کی کمپنیوں پر امریکی پابندی
  • پاکستان برآمدی کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتا ہے: دفترِ خارجہ
  • پابندیاں پاکستان اور چین کو ایک پیغام ہے اور اس اقدام کو بیجنگ واشنگٹن مخاصمت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے: ماہرین
  • نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر پابندیاں امریکہ کی دھمکانے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے: جنرل (ر) آصف یاسین ملک
  • امریکی پابندیوں سے پاکستان کے میزائل پروگرام کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا: ماہرین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام بشمول طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کے چار 'سپلائرز' پر امریکی پابندیوں کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ نے پابندیوں کے ردِعمل میں کہا تھا کہ "پاکستان برآمدی کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتا ہے۔"

پابندیوں کی زد میں آنے والی کمپنیوں کا تعلق چین اور بیلاروس سے ہے جو پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام سمیت بیلسٹک میزائل پروگرامز کے لیے متعلقہ اشیا فراہم کر رہی تھیں۔

پاکستان کا بیلسٹک میزائل پروگرام یا طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل پروگرام کیا ہے؟ ٹیکنالوجی اور پرزہ جات فراہم کرنے کے الزام میں چار 'سپلائرز' کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے ماہرین سے بات کی ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیاں پاکستان اور چین کو ایک پیغام ہے اور اس اقدام کو بیجنگ واشنگٹن مخاصمت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

امریکی پابندی سے کیا ہو گا؟

واشنگٹن کی ڈیفنس یونیورسٹی سے وابستہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور کتاب 'پاکستان کا ایٹم بم' کے مدیر پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ یہ پابندی ایک معمول کے عمل کے ذریعے لگائی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ پابندی اعلٰی سطح پر کسی فیصلہ سازی کے نتیجے میں نہیں لگائی گئی۔ لہذٰا اس سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس پابندی کا ہدف پاکستان نہیں بلکہ چین ہے اور اسلام آباد کا نام صرف ثبوت کے طور پر لیا گیا ہے کہ چینی کمپنیوں نے پاکستان کو آلات فراہم کیے۔

وہ کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی میں جب خطے کے معروضی حالات کے پیشِ نظر امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے نظریں چرا رکھی تھیں تو اس وقت بھی امریکہ نے یورپ کی بعض کمپنیوں پر پاکستان کو پرزے فراہم کرنے پر پابندی لگائی تھی۔

پروفیسر حسن عباس کے بقول اس عمل کا مقصد یہ بھی ہو گا کہ پابندی والی چینی کمپنیاں ان کے اتحادی ممالک کی نظر میں آ جائیں اور بیجنگ کو یہ پیغام بھی ہو گا کہ ان کی سرگرمیاں واشنگٹن کی نظر میں ہیں۔

'یہ امریکہ کی دھمکانے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے'

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر پابندیاں امریکہ کی دھمکانے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نائب امریکی وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو کانگریس میں گواہی کے دوران کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کو آگے بڑھایا تو اسے امریکی اقدامات کا سامنا کرنا ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ پابندی بھی سیاسی بنیاد پر لگائی گئی ہے جس کا مقصد پاکستان کی موجودہ حکومت اور فوجی قیادت کو دباؤ میں لانا ہے۔

جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ امریکی پابندی لگانے سے سیاسی مقاصد تو حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے پاکستان کے میزائل پروگرام پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

'یہ امریکہ، چین مخاصمت کا حصہ ہے'

دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی کہتے ہیں کہ امریکہ کی ان پابندیوں کو بیجنگ اور واشنگٹن کی تجارتی و معاشی مخاصمت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امریکی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے کہ وہ حلیف ممالک کے ساتھ مل کر چین کی معاشی ترقی کا راستہ روکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ان پابندیوں سے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں یا میزائل پروگرام کی استعداد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اُن کے بقول نوے کی دہائی سے ہی پاکستان بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے خود کفیل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان پابندیوں کا پاکستان سے براہ راست کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے چینی کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

سید محمد علی کہتے ہیں امریکہ اپنے اہم اتحادی برطانیہ کو چین سے ایٹمی بجلی گھر اور بھارت کو فائیو جی لینے سے روک چکا ہے اور واشنگٹن قومی سلامتی حکمتِ عملی پر عمل کرتے ہوئے ہر ملک پر دباؤ ڈالے گا کہ چین سے لین دین نہ کیا جائے۔

پاکستان نے امریکی پابندیوں پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے تعلق کے شبہے میں کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر ماضی میں بھی کمرشل کمپنیوں کی فہرستیں تیار ہوتی رہی ہیں۔

کیا پابندی سے میزائل پروگرام متاثر ہو گا؟

امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں سے کیا پاکستان کا میزائل پروگرام متاثر ہو سکتا ہے؟

لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں امریکی پابندیوں سے پاکستان کے میزائل پروگرام کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ یہ اپنی صلاحیت و استعداد کے اس مقام پر پہنچ چکا ہے جو اسے حاصل کرنا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس طویل، محدود اور کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے سو کلومیٹر سے لے کر 2700 کلومیٹر تک پہنچنے والے میزائل موجود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس میزائل کے پرزوں کی وافر مقدار پہلے سے موجود ہو گی اور اگر ضرورت پیش آتی ہے تو میزائل پروگرام کے لیے یہ پرزے ان چار کمپنیوں کے بجائے دیگر کمپنیوں یا ذرائع سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

جنرل (ر) آصف یاسین ملک نے کہا کہ امریکی پابندی پر پاکستان کے دفترِ خارجہ کا بیان بہت دلچسپ ہے کہ امریکہ نے پابندی لگانے سے پہلے ہم سے پوچھا تک نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد کو اس پابندی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

ان کے بقول امریکہ کی ایسی پابندیاں ماضی میں بھی زیادہ کارگر نہیں رہی ہیں اور پاکستان کا ایٹمی و میزائل پروگرام امریکی پابندیوں کے وقت میں ہی آگے بڑھا اور حتمی مراحل تک پہنچا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر نوے کی دہائی میں امریکی پابندیاں نہ ہوتیں تو پاکستان بھی مقامی صلاحیت سے اپنے ایٹمی و میزائل پروگرام اور دفاعی صلاحیت میں خود کفالت کی طرف نہ بڑھتا۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور جنوبی کوریا سب سے زیادہ پابندیوں والے ممالک میں شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کی میزائل صلاحیت وقت کے ساتھ بڑھتی رہی ہے اور جنوبی کوریا کے میزائل تو امریکہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

'یہ پاکستان کے لیے پیغام ہے کہ میزائل پروگرام امریکہ کی نظر میں ہے'

پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ پاکستان طویل عرصے سے طویل اور محدود فاصلے پر اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائل بنا چکا ہے۔ لہذا چند کمپنیوں پر پابندی سے یہ عمل رک نہیں جائے گا۔

ان کے بقول اس پابندی کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ پاکستان کو پیغام ہے کہ اس کا میزائل پروگرام امریکہ کی نظر میں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں پاکستان زیادہ محتاط ہو گا اور دیگر ذرائع سے اپنے ایٹمی و میزائل پروگرام کو چلانے کے وسائل پیدا کرے گا۔

پروفیسر حسن نے کہا کہ امریکہ کو دنیا کے کسی ملک کے میزائل پروگرام جس کی حد امریکہ یا اس کے کسی اہم اتحادی ملک تک پہنچ رہی ہو اس پر تشویش ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چین کے ساتھ مخاصمت کے حالات میں اب جغرافیائی حکمتِ عملی پیچھے چلی گئی ہے اور ٹیکنالوجی و فوجی صلاحیت کے مقابلے میں واشنگٹن کے لیے یہ بات اہم ہو گئی ہے کہ چین سے کسی قسم کا ٹیکنالوجی و فوجی ساز و سامان کا لین دین نہ کیا جائے۔

امریکہ کی جانب سے یہ پابندیان ایسے وقت میں لگائی گئی ہیں جب پیر کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اسلام آباد کا دورہ کر رہے ہیں اور حالیہ عرصے میں پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مختلف سطح پر بڑھا رہا ہے جس میں چین، روس اور ایران شامل ہیں۔

ایسے میں سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ کیا امریکی پابندیاں پاکستان کو کوئی پیغام ہیں کہ وہ چین اور ایران کے ساتھ اپنے بڑھتے تعلقات پر نظرِ ثانی کرے؟

جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ پابندی لگانے کا وقت اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ خطے میں ایران اسرائیل تنازع چل رہا ہے اور چین کے ساتھ تعلقات میں وسعت کے ساتھ ساتھ پاکستان ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر پیش رفت بھی کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ملک کی موجودہ سیاسی قیادت کمزور ہے اور ایک مخلوط حکومت کے لیے شاید بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

ان کے بقول اگر پاکستان نے اس امریکی وارننگ کو کافی نہ سمجھا تو ممکن ہے آنے والے دنوں میں مزید پابندیوں اور اقدامات کا سامنا بھی کرنا پڑے۔

جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے پاکستان مشکل صورتِ حال میں ہے کیوں کہ وہ اگر اس پر پیش رفت نہیں کرتا تو عالمی عدالت سے جرمانہ ہو سکتا ہے اور اگر پیش رفت کرتا ہے تو امریکی ناراضگی کا سامنا کرنا ہو گا۔

پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ کی جانب سے پابندی لگائے جانے کے وقت کے انتخاب کے مقاصد ہو سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں جب ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں اور اسلام آباد ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے، واشنگٹن کی جانب سے یہ ایک پیغام ہو سکتا ہے۔

تاہم حسن عباس سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی قیادت امریکی دباؤ کو قبول نہیں کرے گی کیوں کہ اپنے دفاعی معاملات میں بیرونی دباؤ قبول کرنا ملکی مفاد میں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت موجودہ وقت میں امریکہ سے تعلقات کی بہتری کی نہ صرف خواہش مند ہے بلکہ اس ضمن میں اقدامات بھی لے رہی ہے لہذا وہ نہیں سمجھتے اس عمل سے دو طرفہ تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا۔

حسن عباس نے کہا کہ دفاعی ساز و سامان کے لیے چین پاکستان کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا موجودہ دفاعی نظام زیادہ تر مغربی اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر ہے اور اب یہ پاکستان کا سفارتی امتحان ہے کہ وہ امریکہ اور چین دونوں سے اپنے تعلقات کو لے کر چلے۔

سید محمد علی نے کہا کہ پابندی لگائے جانے کا وقت اتفاقی ہے اور اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ایرانی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں تو پابندی کا اعلان کر دیا جائے۔

فورم

XS
SM
MD
LG