امریکی فوج نے منگل کو بحرالکاہل پر سے پائلٹ کے بغیر چلنے والے ایک انتہائی تیز رفتار طیارہ اڑانے کا تجربہ کیا جارہاہے ، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی رفتار آواز کی سے چھ گنا زیادہ ہو۔گی۔
امریکی ایئر فورس نے کہاہے کہ تجرباتی طیارہ ویو رائیڈر کو 15000 ہزار میٹر کی بلندی پر بی 52 بمبار طیارے کے بازو سے سے فضا میں چھوڑا جائے گا۔
جس کے بعد ٹھوس راکٹ بوسٹر اور میزائل کی شکل کے انجن کے استعمال سے اس کی رفتار 7300 میل فی گھنٹہ تک بڑھ سکتی ہے۔
ویو رائیڈر اپنی پانچ منٹ کی تجرباتی پرواز کے دوران 21000 میٹر کی بلندی پر پہنچے گا، جس کے بعد وہ غوطہ لگا کر سمندر میں ڈوب جائے گا۔ فوجی عہدے داروں کا کہناہے کہ ان کا طیارے کو سمندر سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس سےپہلے مئی 2010ء میں ایک اور طیارے کی تجرباتی اڑان میں آواز سے پانچ گنا رفتار کا تجربہ کیا گیاتھا لیکن تکنیکی خرابی پیدا ہوجانے کے سبب اس تجربے کو ادھورا چھوڑنا پڑاتھا۔
امریکہ کے دفاعی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ہائیپرسونک طیارے کے کامیاب تجربوں سے ایک روز امریکی فضائیہ کی قوت کو نمایاں طور پر بڑھانے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہناہے کہ اس ٹیکنالوجی سے کمرشل طیاروںں کی رفتار میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا جاسکتاہے، جس کے نتیجے میں لندن اور نیویارک کے درمیان پرواز کا دورانیہ سمٹ کر ایک گھنٹے سے بھی کم ہوجائے گا۔
امریکی ایئر فورس نے کہاہے کہ تجرباتی طیارہ ویو رائیڈر کو 15000 ہزار میٹر کی بلندی پر بی 52 بمبار طیارے کے بازو سے سے فضا میں چھوڑا جائے گا۔
جس کے بعد ٹھوس راکٹ بوسٹر اور میزائل کی شکل کے انجن کے استعمال سے اس کی رفتار 7300 میل فی گھنٹہ تک بڑھ سکتی ہے۔
ویو رائیڈر اپنی پانچ منٹ کی تجرباتی پرواز کے دوران 21000 میٹر کی بلندی پر پہنچے گا، جس کے بعد وہ غوطہ لگا کر سمندر میں ڈوب جائے گا۔ فوجی عہدے داروں کا کہناہے کہ ان کا طیارے کو سمندر سے نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس سےپہلے مئی 2010ء میں ایک اور طیارے کی تجرباتی اڑان میں آواز سے پانچ گنا رفتار کا تجربہ کیا گیاتھا لیکن تکنیکی خرابی پیدا ہوجانے کے سبب اس تجربے کو ادھورا چھوڑنا پڑاتھا۔
امریکہ کے دفاعی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ہائیپرسونک طیارے کے کامیاب تجربوں سے ایک روز امریکی فضائیہ کی قوت کو نمایاں طور پر بڑھانے میں مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہناہے کہ اس ٹیکنالوجی سے کمرشل طیاروںں کی رفتار میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا جاسکتاہے، جس کے نتیجے میں لندن اور نیویارک کے درمیان پرواز کا دورانیہ سمٹ کر ایک گھنٹے سے بھی کم ہوجائے گا۔