شکیل تین اگست1916ء کو بدایون، اتر پردیش، میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے علیگڑھ سے گریجوئیٹ ہوئے اور بطور سپلائی افسر دہلی میں تعینات ہوئے ۔ لیکن، غمِ روزگار احساسات و جذبات کے آڑے نہیں آیا اور آپ نے شاعری کا شغل جاری رکھا۔
اُنھوں نے علیگڑھ میں قیام کے دوران انٹر کالج اور انٹر یونیورسٹی مشاعروں میں نہ صرف شرکت کی، بلکہ ہمیشہ جیت بھی مقدّر بنی۔
اُن کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی پورے ملک میں اُنھیں پہچانا جانے لگا۔ اُس دور میں شاعری کا اہم موضوع پسماندہ طبقہ، اُس کی فلاح و بہبود اور معاشرتی اصلاح تھا۔
لیکن، شکیل نے رومانوی اور نازک احساسات کی ترجمانی سے اپنی الگ راہ نکالی۔
وہ کہتےہیں:
میں شکیل دل کا ہوں ترجمان
کہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری
میری زندگی سے جدا نہیں
سنہ 1944میں وہ فلمی گیت لکھنے کی خواہش لیے ممبئی سدھارے اور وہاں فلم پروڈیو سر اے۔آر۔ کاردار اور میوزک کمپوزر نوشاد سے ملے۔ اُنھوں نے شکیل کو اپنی شاعرانہ صلاحیّتوں کو ایک دو لائینوں میں بیان کرنے کو کہا، تو شکیل نے یہ کہہ کر کوزے میں دریا بند کر دیا:
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے
ہر دل میں محبت کی اک آگ لگا دیں گے
نوشاد نے اُنھیں فوراًٍ ہی کاردار کی فلم ’ درد‘ کے لیے سائن کر لیا۔ کم ہی خوش نصیب ہوتے ہیں پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی بلندیاں جن کا مقدر بنتی ہیں۔
آڈیو رپورٹ کے لیے کلک کیجیئے:
شکیل کا ’درد‘ سے شروع ہونے والا سفر اونچائیوں کی طرف ہی گامزن رہا۔ اُنھوں نے نوشاد کے ساتھ مل کرفلم انڈسٹری کو کئی سپر ڈوپر ہٹ گیت دیئے ، بجو باورا، مدر انڈیا، مغلٍِ اعظم، دلاری، شباب، گنگا جمنا اور میرے محبوب نوشاد کے ساتھ اُن کی معروف فلمیں ہیں۔ نوشاد کے علاوہ، روی اور ہیمنت کمار کے ساتھ مل کر بھی کئی مقبول گیت فلم انڈسٹری کو دیئے۔
روی کے ساتھ اُن کی معروف فلموں میں چودھویں کا چاند، صاحب بیوی اور غلام اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں ۔فلم چودھویں کا چاند کے ٹائٹل سانگ کو جسے محمد رفیع نے اپنی مدھر آواز دی 1961ءکے بہترین گیت کا ایوارڈ ملا۔
شکیل نے89 فلموں کے لئے گیت لکھے،غیر فلمی گیت اِس کے علاوہ ہیں۔شکیل کے حوالے سے ایک اور بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ مے نوش نہیں تھے۔
اُنہیں بھارتی سرکار نے’ گیت کارِ اعظم ‘کے خطاب سے نوازا ۔ اگر اُن کی ذاتی زندگی کی بات کریں تو شکیل کی شادی اُن کی ایک دور کی کزن سلمیٰ سے ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سلمیٰ اور شکیل کا خاندان ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ لیکن، چونکہ اُس دور میں پردے کا رواج تھا، لہٰذا شکیل سلمیٰ کو غالباًًٍ پردے کی اوٹ ہی سے دیکھا کرتے ہوں گے۔اُن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔
شکیل کو بیڈ منٹن کا بہت شوق تھا وہ اکثر قریبی دوستوں کے ساتھ پکنک پرجایا کرتے جہاں بیڈ منٹن ،شکار کھیلنے اور مچھلیاں پکڑنے کےساتھ ساتھ پتنگ بازی کے مقابلے بھی ہوا کرتے۔ اُن کے ساتھ زیادہ تر نوشاد اور محمد رفیع ہوا کرتے۔کبھی کبھار جونی واکر بھی شامل ہو جاتے۔فلم نگری میں اُن کے قریبی دوستوں میں دلیپ کمار، وجاہت مرزا،خمار بارہ بنکوی اور اعظم بجت پوری شامل تھے۔
شکیل ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھےاور اسی سبب کئی دوسری پیچیدگیوں کا شکار ہو کر20 اپریل1970ء کو 53 برس کی عمر میں دوسرے جہاں سدھارے۔
اُنھوں نے علیگڑھ میں قیام کے دوران انٹر کالج اور انٹر یونیورسٹی مشاعروں میں نہ صرف شرکت کی، بلکہ ہمیشہ جیت بھی مقدّر بنی۔
اُن کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی پورے ملک میں اُنھیں پہچانا جانے لگا۔ اُس دور میں شاعری کا اہم موضوع پسماندہ طبقہ، اُس کی فلاح و بہبود اور معاشرتی اصلاح تھا۔
لیکن، شکیل نے رومانوی اور نازک احساسات کی ترجمانی سے اپنی الگ راہ نکالی۔
وہ کہتےہیں:
میں شکیل دل کا ہوں ترجمان
کہ محبتوں کا ہوں رازداں
مجھے فخر ہے مری شاعری
میری زندگی سے جدا نہیں
سنہ 1944میں وہ فلمی گیت لکھنے کی خواہش لیے ممبئی سدھارے اور وہاں فلم پروڈیو سر اے۔آر۔ کاردار اور میوزک کمپوزر نوشاد سے ملے۔ اُنھوں نے شکیل کو اپنی شاعرانہ صلاحیّتوں کو ایک دو لائینوں میں بیان کرنے کو کہا، تو شکیل نے یہ کہہ کر کوزے میں دریا بند کر دیا:
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے
ہر دل میں محبت کی اک آگ لگا دیں گے
نوشاد نے اُنھیں فوراًٍ ہی کاردار کی فلم ’ درد‘ کے لیے سائن کر لیا۔ کم ہی خوش نصیب ہوتے ہیں پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی بلندیاں جن کا مقدر بنتی ہیں۔
آڈیو رپورٹ کے لیے کلک کیجیئے:
شکیل کا ’درد‘ سے شروع ہونے والا سفر اونچائیوں کی طرف ہی گامزن رہا۔ اُنھوں نے نوشاد کے ساتھ مل کرفلم انڈسٹری کو کئی سپر ڈوپر ہٹ گیت دیئے ، بجو باورا، مدر انڈیا، مغلٍِ اعظم، دلاری، شباب، گنگا جمنا اور میرے محبوب نوشاد کے ساتھ اُن کی معروف فلمیں ہیں۔ نوشاد کے علاوہ، روی اور ہیمنت کمار کے ساتھ مل کر بھی کئی مقبول گیت فلم انڈسٹری کو دیئے۔
روی کے ساتھ اُن کی معروف فلموں میں چودھویں کا چاند، صاحب بیوی اور غلام اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں ۔فلم چودھویں کا چاند کے ٹائٹل سانگ کو جسے محمد رفیع نے اپنی مدھر آواز دی 1961ءکے بہترین گیت کا ایوارڈ ملا۔
شکیل نے89 فلموں کے لئے گیت لکھے،غیر فلمی گیت اِس کے علاوہ ہیں۔شکیل کے حوالے سے ایک اور بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ مے نوش نہیں تھے۔
اُنہیں بھارتی سرکار نے’ گیت کارِ اعظم ‘کے خطاب سے نوازا ۔ اگر اُن کی ذاتی زندگی کی بات کریں تو شکیل کی شادی اُن کی ایک دور کی کزن سلمیٰ سے ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سلمیٰ اور شکیل کا خاندان ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ لیکن، چونکہ اُس دور میں پردے کا رواج تھا، لہٰذا شکیل سلمیٰ کو غالباًًٍ پردے کی اوٹ ہی سے دیکھا کرتے ہوں گے۔اُن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔
شکیل کو بیڈ منٹن کا بہت شوق تھا وہ اکثر قریبی دوستوں کے ساتھ پکنک پرجایا کرتے جہاں بیڈ منٹن ،شکار کھیلنے اور مچھلیاں پکڑنے کےساتھ ساتھ پتنگ بازی کے مقابلے بھی ہوا کرتے۔ اُن کے ساتھ زیادہ تر نوشاد اور محمد رفیع ہوا کرتے۔کبھی کبھار جونی واکر بھی شامل ہو جاتے۔فلم نگری میں اُن کے قریبی دوستوں میں دلیپ کمار، وجاہت مرزا،خمار بارہ بنکوی اور اعظم بجت پوری شامل تھے۔
شکیل ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھےاور اسی سبب کئی دوسری پیچیدگیوں کا شکار ہو کر20 اپریل1970ء کو 53 برس کی عمر میں دوسرے جہاں سدھارے۔